سوال:
مفتی صاحب ! ایک جاننے والے دن میں ایک خاص عدد درود کا پڑھتے ہیں، وہ درود "صل على النبي الامي" ہے۔
ان صاحب کے دو سوال ہیں:
(1) کیا یہ درود صحیح ہے اور اس کو پڑھ سکتے ہیں؟
(2) دوسری بات ان کے جاننے والے نے کہا ہے کہ "امي" کا مطلب جو پڑھنا لکھنا نا جانتا ہو، تو یہ درود نہ پڑھا کریں، کیونکہ ہم رسول الله صلى الله عليه وسلم کو اس لقب سے نہیں پکارسکتے، یہ بےادبی ہے۔
مفتی صاحب ! ٹھیک کیا ہے؟ آپ کی رہنمائی چاہیے۔
جواب: 1... قرآن کریم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے٬ اور اس سلسلے میں کسی خاص قسم کا درود شریف پڑھنا لازم یا ضروری نہیں قرار نہیں دیا گیا٬ افضل درود شریف درود ابراہیمی ہے٬ جو نماز میں پڑھا جاتاہے٬ لیکن نماز کے علاوہ مواقع پر مختلف الفاظ اور صیغوں کے ساتھ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جا سکتا ہے٬ لہذا سوال میں درود شریف کے جو الفاظ لکھے گئے ہیں(صل علي النبي الأمي)٬ ان الفاظ کے ساتھ بھی درود شریف پڑھا جاسکتا ہے٬ اس میں کوئی حرج نہیں٬ البتہ ان الفاظ کے ساتھ مخصوص تعداد میں درود شریف پڑھنے کی کوئی خاص فضیلت ہمارے علم میں نہیں ہے.
2... قرآن کریم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "أمي" کا لقب استعمال کیا گیا ہے٬ جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مخلوق سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا٬ بلکہ اللہ رب العزت نے براہ راست وہ علوم عطا فرمائے کہ پوری انسانیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکمت سے بھرپور قیمتی ارشادات اور آپ کی حیات طیبہ سے رہنمائی کی محتاج ہے٬ اس لحاظ سے آپ ساری انسانیت کے معلم ہیں.
"أمی" کا لفظ عام انسانوں کیلئے تو عیب کا باعث ہے٬ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کمال کا باعث اور معجزہ ہے.
لہذا درود شریف وغیرہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "أمی" کا لقب استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے٬ بلکہ ایک روایت میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا درود شریف سکھایا ہے٬ چنانچہ حضرت عقبہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ درود پاک پڑھنے کا طریقہ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
قُولُوا: اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ
(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب: الصلاة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم بعد التشهد، 1: 258، حدیث نمبر: 981)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الأعراف، الایة: 157)
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِنْدَهُمْ فِي التَّوْراةِ وَالْإِنْجِيلِ....الخ
التفسير المنير للزحيلي: (21/13)
"وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ، وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ، إِذاً لَارْتابَ الْمُبْطِلُونَ ( العنکبوت، ٤٨) ٥- النبي محمد صلّى الله عليه وسلّم قبل نزول القرآن كان أمياً لايقرأ ولايكتب بشهادة الكتب السماوية المتقدمة، وبمعرفة قومه الذين عايشوه في مكة مدة أربعين عاماً. وأمّية النبي صلّى الله عليه وسلّم دليل قاطع واضح على أن القرآن كلام الله العزيز الحكيم. ثم ذكر النقاش في تفسير هذه الآية عن الشعبي أنه قال: ما مات النبي صلّى الله عليه وسلّم حتى كتب، وقرأ. وقد ثبت في صحيحي البخاري ومسلم أن النبي في صلح الحديبية كتب بيده: محمد بن عبد الله، ومحا كلمة رسول الله، حينما أصر المشركون على عدم كتابتها. قال القرطبي: الصحيح أنه صلّى الله عليه وسلّم ما كتب ولا حرفاً واحداً، وإنما أمر من يكتب، وكذلك ما قرأ ولا تهجى. وقال: «إنا أمة أمّية لانكتب ولانحسب». رواه الشيخان وأبو داود والنسائی عن ابن عمر"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی