سوال:
مفتی صاحب ! بعض اوقات ہمیں حکومت کے ایجنٹوں کو کچھ اضافی ادائیگی ادا کرنا پڑتی ہے، تاکہ متعلقہ کام آسانی سے اور تیزی سے ہو جائے (کام خود ہی ایک قانونی کام ہے، لیکن اس کو کوئکر بنانے کے لئے اضافی ادائیگی کی جا رہی ہے) اس پر کیا حکم ہے؟ کیا اسے رشوت کے طور پر سمجھا جائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ رشوت لینا اور دینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، البتہ ظلم سے بچاؤ کے لئے یا اپنے جائز حق کی وصولیابی کے لیے رشوت دینا پڑے، تو امید ہے کہ رشوت دینے والے پر گناہ نہیں ہوگا، البتہ لینے والے پر بہرصورت گناہ ہوگا۔
صورت مسئلہ کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ کام اپنی میعاد اور process کے مطابق ہو رہا ہو، تو اس process کو تیز کرنے کے لیے رشوت دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر متعلقہ عہدیدار جان بوجھ کر اس process میں ٹال مٹول کرے اور وقت میں تاخیر کرے، جس کی وجہ سے آپ کو اپنا جائز حق وصول ہونے میں تاخیر ہو رہی ہو، تو اس صورت میں امید ہے کہ رشوت دینے والے پر گناہ نہیں ہوگا، البتہ رشوت لینے والے پر بہر صورت گناہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (16/3، ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالمُرْتَشِيَ.
رد المحتار: (362/5، ط: دار الفکر)
الرِّشْوَةُ بِالْكَسْرِ مَا يُعْطِيهِ الشَّخْصُ الْحَاكِمَ وَغَيْرَهُ لِيَحْكُمَ لَهُ أَوْ يَحْمِلَهُ عَلَى مَا يُرِيدُ.
و فیہ ایضاً: (423/6- 424، ط: دار الفکر)
(قَوْلُهُ إذَا خَافَ عَلَى دِينِهِ) عِبَارَةُ الْمُجْتَبَى لِمَنْ يَخَافُ، وَفِيهِ أَيْضًا دَفْعُ الْمَالِ لِلسُّلْطَانِ الْجَائِرِ لِدَفْعِ الظُّلْمِ عَنْ نَفْسِهِ وَمَالِهِ وَلِاسْتِخْرَاجِ حَقٍّ لَهُ لَيْسَ بِرِشْوَةٍ يَعْنِي فِي حَقِّ الدَّافِعِ اه۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی