سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا صدقہ کے لیے بکرا یا کسی دوسرے جاندار کو ذبح کرنا جائز ہے؟ اور صدقہ کرنے کی بہترین شکل کیا ہوسکتی ہے؟
جزاکم اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ شریعت میں صدقہ کا تصور یہ ہے کہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنی مصیبتوں اور برائیوں کو ٹالنے یا کسی نعمت کے شکرانے کے طور پر کوئی بھی چیز کسی کو صدقہ میں دیکر اس کی ضرورت کو پورا کرنا۔
اگر اس کی ضرورت گوشت کی ہو تو اسے گوشت دیا جا سکتا ہے اور اگر اسے چاول، آٹا، چینی، لحاف، بستر یا رقم کی ضرورت ہو تو اسے یہ اشیاء دے کر اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے تو یہ بھی صدقہ کہلائے گا۔
چنانچہ سوائے چند صورتوں (حج، عید الاضحیٰ کی قربانی اور عقیقہ وغیرہ)کے شریعت نے کہیں بھی صدقہ میں جانور ذبح کرنے کو لازم قرار نہیں دیاہے، جیسا کہ عوام میں صدقہ کے بارے میں مشہور ہے کہ بکرا ہی صدقہ میں دیا جائے، تو صدقہ ادا ہوتا ہے اور خاص طور پر کالا بکرا، اس سے بلائیں دور ہوتی ہیں اور یہ جان کے بدلے جان کا فدیہ ہے۔
خوب سمجھنا چاہیے کہ شریعت میں ان باتوں کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوؤں کے اثرات اور ان کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔
اس سلسلے میں دیکھا یہ گیا ہے کہ فقیر کی بنیادی ضرورت پوری نہیں ہورہی ہوتی اور اسے بکرے کا گوشت دیا جارہا ہوتا ہے، اس گوشت کے بجائے اگر اس کو رقم یا راشن دے دیا جائے، تو کئی دن وہ اس سے اپنے گھر کا خرچ چلا سکتا ہے، لہذا صدقہ کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے نقد رقم دے دی جائے، تاکہ وہ اس رقم کو اپنی ضروریات میں صرف کرسکے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ بعض لوگ اس نیت سے بکرا ذبح کرتے ہیں، تاکہ جان کے بدلے جان کا فدیہ ادا ہوجائے اور انسان کی جان محفوظ ہوجائے، تو اگر صرف یہ نیت ہو تو بکرا ذبح کرنے کا یہ طریقہ غیر شرعی ہے۔
ہاں! اگر بکرا یا کوئی بھی جانور ذبح کرنے سے مقصود صرف اللہ کی رضا ہو، تاکہ اس کا گوشت فقراء ومساکین کو کھلایا جاسکے، تو اس نیت سے بکرا وغیرہ قربان کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 2830)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ. ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ الْمَعْنَى، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، قَالَ: قَالَ نُبَيْشَةُ نَادَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا كُنَّا نَعْتِرُ عَتِيرَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي رَجَبٍ، فَمَا تَأْمُرُنَا، قَالَ: اذْبَحُوا لِلَّهِ فِي أَيِّ شَهْرٍ كَانَ وَبَرُّوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَأَطْعِمُوا، قَالَ: إِنَّا كُنَّا نُفْرِعُ فَرَعًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ: فِي كُلِّ سَائِمَةٍ فَرَعٌ تَغْذُوهُ مَاشِيَتَكَ حَتَّى إِذَا اسْتَحْمَلَ ، قَالَ نَصْرٌ: اسْتَحْمَلَ لِلْحَجِيجِ ذَبَحْتَهُ فَتَصَدَّقْتَ بِلَحْمِهِ، قَالَ خَالِدٌ: أَحْسَبَهُ، قَالَ عَلَى ابْنِ السَّبِيلِ: فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ، قَالَ خَالِدٌ: قُلْتُ لِأَبِي قِلَابَةَ كَمْ السَّائِمَةُ قَالَ: مِائَةٌ.
الفقه الاسلامی و ادلته: (2056/3، ط: دار الفکر)
يستحب أن يتصد ق بما تيسر، ولا يستقله، ولا يمتنع من الصدقة به لقلته وحقارته، فإن قليل الخير كثير عند الله تعالى، وما قبله الله تعالى وبارك فيه، فليس هو بقليل (١)، قال الله تعالى: {فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره} [الزلزلة:٧/ ٩٩]، وفي الصحيحين عن عدي بن حاتم: «اتقوا النار ولو بشق تمرة» وفي الصحيحين أيضا عن أبي هريرة: «يا نساء المسلمات لا تحقرن جارة أن تهدي لجارتها ولو فرسن شاة» والفرسن من البعير والشاة كالحافر من غيرهما. وروى النسائي وابن خزيمة وابن حبان عن أبي هريرة: «سبق درهم مئة ألف درهم، فقال رجل: وكيف ذاك يا رسول الله؟ قال: رجل له مال كثير أخذ من عرضه - جانبه- مئة ألف درهم تصدق بها، ورجل ليس له إلا درهمان، فأخذ أحدهما، فتصدق به».
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی