عنوان: انعامی بانڈز کی شرعی حیثیت(537-No)

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ گورنمنٹ پاکستان کی جاری کردہ اسکیم جس کو انعامی بانڈ کہتے ہیں، جس پر قرعہ اندازی کے ذریعے بعض نمبروں پر انعامات دیئے جاتے ہیں، جس کو انعام ملے یا نہیں ملے، ان کی اصل رقم ہر حال میں محفوظ رہتی ہے، تو کیا ان پرائز بانڈز کا خریدنا، سرمایہ لگانا اور انعام ملنے کی صورت میں انعامی رقم حلال اور جائز ہے یا حرام یا قمار ہے؟

جواب: انعامی بانڈز کے قواعد و ضوابط دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ انعامی بانڈز پر جو رقم بطور انعام دی جاتی ہے، وہ خالصتاً سود کی رقم ہے، جسے قمار کے طریقے سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہر بانڈ خریدنے والے کے نام ایک معین شرح سے سود لگایا جاتا ہے، پھر بجائے اس کے ہر شخص کی رقم پر علیحدہ سود دیا جائے، تمام افراد کے سود کی مجموعی رقم کو قرعہ اندازی کے ذریعے صرف ان لوگوں پر تقسیم کیا جاتا ہے، جن کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بانڈ کے انعام کی رقم سود کو قمار کرکے ادا کیا جاتا ہے، لہٰذا اس انعامی بانڈز کی رقم کا لینا حرام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo

و قولہ تعالی: (المائدۃ، الایة: 90)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَo

صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.

عمدۃ القاری: (435/8)
الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔

مصنف ابن ابی شیبہ: (کتاب البیوع و الاقضیہ، 483/4، ط: مکتبة الرشد)
عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".

رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحۃ، 403/6، ط: سعید)
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1931 Jan 10, 2019
inamie bond ki sharie hasiat, postion of bond in sharia

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.