عنوان: حافظ، عالم اور مفتی کے القابات کا ثبوت قرآن وحدیث سے(5381-No)

سوال: السلام علیکم، حضرت ! سوال یہ ہے کہ لفظِ "حافظ" یا "علامہ" یا "مفتی" جیسے دیگر الفاظ نہ صحابہ کہلواتے تھے، نہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو آج ہم یہ کیوں کہلواتے ہیں؟
جزاک اللّٰه

جواب: ١.واضح رہے کہ حافظ، عالم اور مفتی کے القابات بلاشبہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کےلیے استعمال بھی ہوئے ہیں اور اس پر کئی احادیث شاہد ہیں ،اسلامی سوسائٹی میں حفاظ کرام کی امتیازی شان کو واضح کرنےکے لیے احادیث مبارکہ میں انہیں مختلف القابات سے نوازا گیا ، مثلاً’’حامل القرآن‘‘ ،’’صاحب القرآن‘‘،’’اھل القرآن‘‘، ’’جمع القرآن‘‘، حافظ القرآن‘‘ اور مسلم شریف کی ایک روایت میں ’’عالم ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ،
اسی طرح مفتی کا معنی ہے’’فتوی بتانے والا‘‘۔ قران پاک میں ’’افتاء‘‘ کا لفظ خود رب العالمین کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔
ارشاد ربانی ہے :
’’ویستفتونک فی النسآء قل اﷲ یفتیکم فیھن وما یتلی علیکم فی الکتاب‘‘۔(النساء۔١٢٧)
ترجمہ:
اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم دیتے ہیں ، اور وہ آیات بھی جو قرآن کے اندر تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔
کلالہ کے سلسلہ میں آیت نازل ہوئی۔
’’یستفتونک ، قل ﷲ یفتیکم فی الکلالۃ‘‘(النساء۔۱۷۶)
ترجمہ:
لو گ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں ۔ آپ فرما دیجئے کہ اﷲ تعالیٰ تم کو کلالہ کے باب میں حکم دیتے ہیں۔
ان آیات مبارکہ میں ’’ افتاء اور فتوی ‘‘ کی نسبت خود رب العزت کی طرف کی گئی ہے۔
اس امت کے مفتی اعظم خود رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکت ہیں، اور آپ وحی کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف سے فتوی دیا کرتے تھے ۔ آپ کے فتاوی (احادیث) کا مجموعہ ، شریعتِ اسلامیہ کا دوسرا ماخذ ہے۔ ہر مسلمان کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ آپ نے فتاوی کے ذریعہ ہر باب میں رہنمائی کی ہے۔ عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاقیات و آداب وغیرہ میں آپ کے فتاوی مشعلِ راہ ہیں۔ آپ کے عہدِ زریں میں کوئی دوسرا فتوی دینے والا نہیں تھا؛ البتہ آپ کبھی کبھی کسی صحابی کو کسی دور دراز علاقہ میں مفتی بنا کر بھیجتے تو وہ منصب افتاء و قضا پر فائز ہوتے اور لوگوں کی رہنمائی کرتے، جیسے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو آپ نے یمن بھیجااور انہیں قرآن و حدیث اور قیاس و اجتہاد کے ذریعہ فتوی دینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
آپ کے بعد فتوی کی ذمہ داری کو صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سنبھالا اور احسن طریقے سے انجام دیا۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں فتوی دینے والے صحابہ کرام کی مجموعی تعداد ایک سوتیس سے بھی زائد تھی ، جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھے، البتہ زیادہ فتوی دینے والے سات حضرات تھے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ۔
اس ساری تفصیل سے واضح ہوا کہ حافظ، عالم اور مفتی کے القابات کا استعمال صرف عوام الناس میں امتیاز اور فرق کے لیے کیاجاتا ہے، ان کو لازم نہیں سمجھا جاتا اور یہ القابات ان اہل علم کا دنیا میں اعزاز و اکرام ہے ، جس کا حکم احادیث مبارکہ میں دیاگیا ہے۔
۲۔ یہ القابات بالکل اسی طرح ہیں، جیسے کسی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل کو ڈاکٹر اور انجینئرنگ کی ڈگری کے حامل کو انجینئر کہا جاتا ہے اور مقصد صرف امتیاز ہوتا ہے، بالکل اسی طرح قرآن کریم حفظ کرنے والے کو حافظ، علم دین پڑھ کر فارغ التحصیل ہونے والے کو عالم اور فتوی دینے کی صلاحیت حاصل کرنے والے کو مفتی کہا جاتا ہے اور ڈاکٹر، انجینئر کے القاب تو محض دنیاوی زندگی میں ہیں، جبکہ حافظ، عالم اور مفتی کے القابات نہ صرف دنیاوی زندگی میں باعث شرف اورفضیلت ہیں بلکہ اخروی زندگی میں بھی باعثِ شرف اورفضیلت ہونگے۔
۳۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین کو "صحابی" کا عظیم لقب ملا، اور بلاشبہ "صحابی" کا لقب دین اور دنیا کا عظیم لقب ہے اور عالم اور مفتی کے القابات سے ہزارہا ہزار درجے افضل اور بہتر ہے، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام کے مزید شرف اور فضیلت کو بیان کرنے کے لیے بعض صحابہ کرام کے لیے عالم ، حافظ وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

إعلام الموقعين: (11/1، ط: دار الجیل)
وأول من قام بهذا المنصب الشريف سيد المرسلين وإمام المتقين وخاتم النبيبن عبد الله ورسوله وأمينه على وحيه وسفيره بينه وبين عباده فكان يفتي عن الله بوحيه المبين ۔

و فيه ایضاً: (12/1، ط: دار الجیل)
والذين حفظت عنهم الفتوى من أصحاب رسول الله ص - مائة ونيف وثلاثون نفسا ما بين رجل وامرأة وكان المكثرون منهم سبعة عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن مسعود وعائشة أم المؤمنين وزيد بن ثابت وعبد الله بن عباس وعبد الله بن عمر۔

شعب الإيمان للبيهقي: (556/2، ط: دار الکتب العلمیة)
عن بن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث لا يكترثون للحساب ولا تفزعهم الصيحة ولا يحزنهم الفزع الأكبر حامل القرآن يؤديه إلى الله بما فيه يقدم على ربه عز وجل سيدا شريفا حتى يوافق المرسلين ومن أذن سبع سنين لا يأخذ على أذانه طمعا وعبد مملوك

مسند أحمد: (403/11، ط: مؤسسة الرسالة)
عن عبد الله بن عمرو عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال :« يقال لصاحب القرآن يوم القيامة اقرأه وارقه ورتل كما كنت ترتل فى الدنيا ، فإن منزلك عند آخر آية تقرؤها

سنن ابن ماجه: (رقم الحدیث: 215، 78/1، ط: دار الفکر)
عن أنس بن مالك قال:قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: أن لله أهلين من الناس، قالوا يا رسول الله من هم ؟ قال: هم أهل القرآن أهل الله وخاصته۔

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 11823، 591/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
۔۔۔فأول من يدعو به : رجل جمع القرآن ، ورجل قتل في سبيل الله ، ورجل كثير المال....

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 4937)
عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" مثل الذي يقرا القرآن وهو حافظ له مع السفرة الكرام البررة۔۔۔

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1905)
ورجل تعلم العلم وعلمه وقرأ القرآن فأتي به فعرفه نعمه فعرفها قال فما عملت فيها قال تعلمت العلم وعلمته وقرأت فيك القرآن قال كذبت ولكنك تعلمت العلم ليقال عالم وقرأت القرآن....

الإصابة في تمييز الصحابة: (26/4، ط: دار الجیل)
عن الشعبي قال ركب زيد بن ثابت فأخذ بن عباس بركابه فقال لا تفعل يا بن عم رسول الله فقال هكذا أمرنا أن نفعل بعلمائنا

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1217 Oct 09, 2020
hafiz aalim or mufti kay alqabaat ka suboot quran wa hadees say, Evidence of titles of Hafiz, aalim / Scholar and Mufti from Quran and Hadith

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Miscellaneous

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.