سوال:
السلام عليكم، مفتی صاحب! اگر کوئی نفلی عبادت (مثلاً: نفلی روزہ وغیرہ) کا ارادہ اچھی نیت سے کرے، لیکن بعد میں (روزہ رکھنے سے پہلے ہی) وسوسہ شامل ہوجائے کہ لوگ بھی میرے بارے میں اچھا محسوس کریں گے تو کیا پھر اس کو روزہ رکھنا چاہیے؟ اسی طرح اگر ایک شخص روزہ اس نیت سے رکھ رہا تھا کہ لوگ اس کے بارے میں اچھا محسوس کریں گے، لیکن پھر وہ توبہ کر کے صحیح نیت سے روزہ رکھنا چاہے تو کیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ دوسروں کو دکھانے کی نیت سے قصداً کوئی عمل کرنا تاکہ لوگ اس کو اچھا سمجھیں اور اس کی شہرت ہو تو یہ ریاکاری اورایک اختیاری چیز ہے، کیونکہ اس میں عمل کا باعث ہی اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کے بجائے دوسری چیز مقصود ہوتی ہے، اس لیے حدیث شریف میں ریاکاری کو شرک قراردیا گیا ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص ایک اچھا عمل اللہ کی رضا کی نیت سے کر رہا ہو، اور اس دوران یا عمل کے بعد اس کو یہ وسوسہ آئے کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں اور اچھا سمجھ رہے ہیں، یہ قابلِ مذمت نہیں ہے، کیونکہ یہ غیر اختیاری چیز ہے، اس کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیے، شیطان اکثر ریا کے خوف سے نیک اعمال کرنے سے روکتا ہے، اور وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ نیک کام کرو گے تو دِکھاوا ہوجائے گا۔
فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے جان لینے یا دیکھ لینے کے خوف سے نیک عمل کو ترک کرنا ریا ہے، اور لوگوں کے لیے کوئی کام کرنا شرک ہے، اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں سے عافیت میں رکھے۔
حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی ؒ فرماتے ہیں کہ ریا ہمیشہ ریا نہیں رہتی، کوئی اوّل ریا سے کام کرتا ہے، پھر ریا سے عادت ہوجاتی ہے اور پھر عبادت ہوجاتی ہے، اس لیے محض ریا کے خوف سے کوئی نیک عمل نہیں چھوڑنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2985، 2289/4، ط: دار إحياء التراث العربی)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تبارك وتعالى: أنا أغنى الشركاء عن الشرك، من عمل عملا أشرك فيه معي غيري، تركته وشركه ".
سنن ابن ماجۃ: (رقم الحدیث: 3989، 391/4، ط: دار الکتب العلمیۃ)
عن عمر بن الخطاب، أنه خرج يوما إلى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجد معاذ بن جبل قاعدا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم يبكي؟ فقال: ما يبكيك؟ قال: يبكيني شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «إن يسير الرياء شرك.
إحياء علوم الدين للغزالی: (382/4، ط: دار المعرفة)
وقال الفضيل ترك العمل من أجل الناس رياء والعمل من أجل الناس شرك والإخلاص أن يعافيك الله منهما.
سبل السلام للصنعانی: (660/2، ط: دار الحدیث)
الرياء ۔۔۔لغة أن يرى غيره خلاف ما هو عليه وشرعا أن يفعل الطاعة ويترك المعصية مع ملاحظة غير الله أو يخبر بها أو يحب أن يطلع عليها لمقصد دنيوي من مال أو نحوه، وقد ذمه الله في كتابه وجعله من صفات المنافقين في قوله: {يراءون الناس ولا يذكرون الله إلا قليلا} [النساء: 142] وقال {فمن كان يرجوا لقاء ربه فليعمل عملا صالحا ولا يشرك بعبادة ربه أحدا} [الكهف: 110] ، وقال {فويل للمصلين} [الماعون: 4]- قوله - {الذين هم يراءون} [الماعون: 6] وورد فيه من الأحاديث الكثيرة الطيبة الدالة على عظمة عقاب المرائي، فإنه في الحقيقة عابد لغير الله، وفي الحديث القدسي «يقول الله تعالى: من عمل عملا أشرك فيه غيري فهو له كله وأنا عنه بريء وأنا أغنى الأغنياء عن الشرك».
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی