سوال:
مفتی صاحب ! میرے والد کا انتقال 1976 میں ہوا، اس وقت میری دادی حیات تھیں، میری امی، 5 بہنیں اور چار بھائی تھے، 1986 یعنی دس سال بعد ہمارے تایا اور چچا نے ہمارے والد کی جائیداد ہماری والدہ کے نام کرادی، اس وقت دادی کا بھی انتقال ہو چکا تھا، لیکن چچا اور تایا نے جائیداد میں کوئی دعوی نہیں کیا۔
پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے والد کی میراث سے دادی کو ملنے والا حصہ، جو دادی کے انتقال کے بعد چچا اور تایا کو دادی کی میراث سے ملنے تھا۔ کیا ہمیں چچا اور تایا کے انتقال کے بعد ان کی اولاد کو ادا کرنا ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ چچا اور تایا کا اپنے حصہ کا مطالبہ اور دعوی نہ کرنے کی وجہ سے ان کا میراث کا حصہ ختم نہیں ہوا۔
صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کے والد کے انتقال کے وقت دادی حیات تھیں، اور آپ کے والد کی میراث میں سے ان کا حصہ بھی بحیثیتِ ماں بنتا تھا، لہذا دادی کی میراث میں سے چچا اور تایا کو ملنے والا حصہ ان کے مرنے کے بعد، ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ....الخ
رد المحتار: (باب دعوی النسب، 89/8، ط: دار الفکر)
ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه لأن الإرث جبري لا يصح تركه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی