سوال:
جناب ! ہم نے کچھ درخت 53 ہزار کے فروخت کیے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ زکوۃ کتنی نکالنی ہوگی؟
جواب: مذکورہ صورت میں درختوں کو بیچنے کی صورت میں جو رقم حاصل ہوئی ہے، اپنی زکوة کا حساب کرتے وقت اس میں سے جتنی رقم آپ کی ملکیت میں ہو، اسے زکوٰۃ کے حساب میں شامل کیا جائے گا اور جو رقم آپ کی زكوة کی تاریخ سے پہلے خرچ ہوگئی، اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی، لہذا اگر آپ صاحب نصاب (جس شخص پر زکوۃ فرض ہوتی ہے) ہوں تو دیگر رقوم کے ساتھ اس رقم کو ملا کر کل رقم کی ڈھائی زکوة ادا کرنا لازم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (273/2)
"والاصل أن ما عدا الحجرین والسوائم انما یزکی بنیۃ التجارۃ بشرط عدم المانع المؤدی الی الثنی وشرط مقارنتھا لعقد التجارۃ الخ
(قولہ ماعدا الحجرین) وما عدا ما ذکر کالجواھر والعقارات والمواشی العلوفۃ و العبید والثیاب والأمتعۃ ونحوذالک من العروض"
الفقه الاسلامی و ادلته: (1948/3)
" لاتجب الزکاۃ فی أعیان العمائر الا ستغلالیۃ والمصانع والسفن والطائرات وما أشبھھا بل تجب فی صافی غلتھا عند توافر شرط النصاب وحولان الحول"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی