سوال:
مفتی صاحب ! میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ کام کر رہا ہوں، جہاں میری تنخواہ سے ٪10 فیصد رقم کٹوتی ہے اور ٪10 فیصد رقم کمپنی اس رقم میں شامل کرتی ہے تو کل ٪20 فیصد رقم جی پی فنڈ میں جمع ہوتی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ کمپنی یہ رقم کہاں لگاتی ہے؟ ایک یا دو بار اس میں بھاری رقم ضائع ہوگئی، جہاں خوش نما سرمایہ کاری ہوئی، کیا جی پی فنڈ میں یہ منافع درست ہے یا نہیں؟
جواب: سرکاری اور نجی اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیے جی پی فنڈ (GP Fund) کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، اور اس فنڈ کی مد میں ملازمین کی تنخواہ میں سے کچھ فیصد کٹوتی کرکے ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کرلی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق یہ فنڈ تین قسم کی رقوم پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں سے دو قسم کی رقوم (ملازم کی تنخواہ سے کاٹی گئی بنیادی رقم اور ادارے کی طرف سے تبرعاً اس میں شامل کیے گئے اضافے) کا وصول کرنا بلاشبہ درست ہے، ان دونوں رقوم میں کوئی شک شبہ نہیں، جبکہ ملازم کی اصل ملازمت جائز ہو۔
البتہ تیسری قسم کی رقم (یعنی پہلی دو قسموں کی رقم پر حاصل ہونے والے نفع) کے حکم میں کچھ تفصیل ہے، جس کا حاصل یہ ہے:
(الف) اگر ادارہ ملازم کی فنڈ والی رقم اپنے اکاؤنٹ میں ہی رکھ کر اس پر نفع دیتا ہے، الگ سے کوئی ٹرسٹ بنا کر اس میں منتقل نہیں کرتا، یا ملازم کی درخواست کے بغیر الگ ٹرسٹ میں رکھواتا ہے، تو ان دونوں صورتوں میں اگر ادارہ نے ملازم کی تنخواہ سے جبری طور پر کٹوتی کی ہو، تو ملازم کے لیے اس کا نفع حلال ہے(اگرچہ ادارے کو وہ حرام کاروبار سے حاصل ہوا ہو، بشرطیکہ ملازم خود براہ راست سود کی رقم وصول نہ کرے، بلکہ ملازم کو اپنے ادارے کی طرف سے یہ رقم ملے۔)
اگر کٹوتی اختیاری ہو، تو اگر وہ رقم اس ادارے کے مرکزی اکاؤنٹ میں جمع ہو، نیز اس مرکزی اکاؤنٹ میں موجود زیادہ تر رقم حلال ہو، تو اس کے لینے اور استعمال کرنے کی گنجائش ہے، لیکن اس میں سود کی مشابہت ہے، اس لیے ملازم کو چاہیے نفع کی یہ رقم صدقہ کردے یا کسی کارِ خیر میں صرف کردے۔
(ب) اگر وہ رقم ملازم کی اجازت سے کسی ٹرسٹ میں رکھوائی جائے(کٹوتی جبری ہو یا اختیاری) اور وہ ٹرسٹ کسی مستقل مالی حیثیت کا مالک ہو، تو ٹرسٹ چونکہ ملازم کا وکیل سمجھا جاتا ہے، اس لیے ٹرسٹ میں رقم آنا ایسا ہے، جیسے خود ملازم کے ہاتھ میں آنا، لہذا اگر یہ رقم کسی ناجائز کاروبار سے حاصل کی گئی ہو یا کسی سودی بینک سے حاصل کی گئی ہو، تو اس صورت میں اس نفع کا استعمال جائز نہیں ہے اور اگر یہ رقم کسی جائز کاروبار سے حاصل کی گئی ہو یا کسی مستند غیر سودی بینک میں رکھ کر حاصل کی گئی ہو، تو اس کا وصول کرنا درست ہے۔
(ماخذہ تبویب فتاوی دارالعلوم کراچی 70/1884,56/1875)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی