سوال:
مفتی صاحب ! پرائز بانڈ پر ملنے والا نفع حلال ہے یا حرام؟
جواب: پرائز بانڈ کے ذریعہ حاصل ہونے والی رقم میں" سود " اور "جوا" دونوں حیثیتیں موجود ہیں، اس لیے پرائز بانڈ کی خرید و فروخت ناجائز اور حرام ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو رقم خریدار نے پرائز بانڈ کی خریداری کی صورت میں دی ہے، اس رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور قرض دے کر اس پراضافہ لینا "سود " ہے، خواہ قرض کی اصل رقم پر اضافی رقم کا ملنا یقینی ہو یا اضافی رقم ملنے کا احتمال موجود ہو، اس اعتبار سے پرائز بانڈ کی لین دین جائز نہیں ہے۔
دوسری حیثیت یہ ہے کہ بہت سے لوگ مخصوص رقم دے کر پرائز بانڈ کی دستاویز حاصل کرتے ہیں، ہر شخص کی نیت یہی ہوتی ہے کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ میرا نام نکلے اور انعامی رقم حاصل کرسکوں، چند افراد کا کسی مالیاتی اسکیم میں اس طور پر رقم لگانا کہ کسی ایک کو یا چند مخصوص افراد کو اضافی رقم ملے، اور بقیہ افراد اضافی رقم سے محروم رہیں، یہ "جوئے "کی ایک صورت ہے، اس حیثیت سے بھی پرائز بانڈ کا لین دین ناجائز ہے۔
لہٰذا پرائز بانڈ سے حاصل ہونے والی انعامی رقم "سود "اور"جوئے" پر مشتمل ہونے کی بنا پر حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة، الایة: 90)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
الدر المختار: (مطلب کل قرض جر نفعا، 166/5، ط: سعید)
"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام.
اعلاء السنن: (کتاب الحوالة، باب کل قرض جر منفعةً، 513/14، ط: إدارۃ القرآن)
" قال ابن المنذر: أجمعوا علی المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادة أو هدیة فأسلف علی ذلک، إن أخذ الزیادة علی ذلک ربا".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی