سوال:
مولانا صاحب ! کیا اسٹیٹ لائف انشورنس کروانا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ انشورنس کے ذریعے انسان مستقبل میں پیش آنے والے امکانی خطرات سے حفاظت اور بعض نقصانات کی تلافی کی یقین دہانی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
مروجہ انشورنس میں کسٹمر ایک معینہ مدت تک ایک مقررہ رقم قسط وار انشورنس کمپنی کو ادا کرتا ہے، اگر اس مقررہ مدت کے درمیان اس کی جان و مال و املاک کو کوئی خطرہ لاحق ہو گیا، تو انشورنس کمپنی اس کو یا اس کے وارثین کو جمع شدہ رقم سے زائد رقم ادا کرتی ہے، یہ زائد رقم سود ہے، اور اگر اس مقررہ مدت میں کوئی خطرہ پیش نہ آیا، تو جمع شدہ رقم واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے، اور یہ رقم شرعی طور پر (قمار) جوئے میں شمار ہوتی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مروجہ انشورنس کمپنی کی بنیاد صرف سودی معاملات پر نہیں، بلکہ غرر (دھوکہ) اور قمار(جوا) پر بھی ہے، چونکہ سود اور قمار (جوا) شریعت میں حرام ہے، لہذا مروجہ انشورنس سود، دھوکہ اور جوئے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
و قوله تعالیٰ: (المائدۃ، الایة: 90)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
عمدۃ القاری: (435/8)
الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔
مصنف ابن ابی شیبه: (کتاب البیوع و الاقضیة: 483/4، ط: مکتبة الرشد)
عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".
رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحة، 403/6، ط: سعید)
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی