سوال:
ایک خاتون نے ایک لڑکی کی شادی کے لیے کچھ پیسے جمع کیے، جو لوگوں نے نفلی صدقہ کے طور پر دیے تھے، خاتون نے ان پیسوں سے سامان خرید کر اس لڑکی کو دیدیا، پھر بھی بہت سارے پیسے بچ گئے، تو کیا وہ بچے ہوئے پیسے کسی اور ضرورت مند لڑکی کی شادی میں خرچ کرسکتے ہیں یا کسی ضرورت مند کو دے سکتے ہیں؟
نوٹ: واضح رہے کہ اس لڑکی کے جہیز وغیرہ کا انتظام کسی دوسرے شخص نے بھی اچھی طرح کردیا ہے، اب اس کو کسی اور سامان کی ضرورت نہیں ہے۔
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ نفلی صدقات و عطیات کی رقم کسی بھی خیر کے کام میں خرچ کی جاسکتی ہے۔
صورت مسئولہ میں نفلی صدقات کی رقم، اگر صدقہ دینے والوں نے بطور خاص اسی لڑکی کے لیے دی تھی، تو ایسی صورت میں ان کی اجازت کے بغیر کسی اور مصرف میں خرچ کرنا درست نہیں ہے، اور اگر انہوں نے کلی اختیار کے ساتھ رقم دی تھی کہ یہ رقم جہاں بھی چاہیں اس کو خرچ کر دیں، تو پھر کسی بھی ضرورت مند کو دی جا سکتی ہے اور کسی اور لڑکی کے شادی کے سامان کی خریداری میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (357/2، ط: سعید)
"اعلم أن الصدقۃ تستحب فاضل عن کفایتہ والافضل لمن یتصدق نفلا أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لأنہا تصل إلیہم ولا ینقص من أجرہ شیء".
الفتاوی التاتارخانیة: (211/3- 214)
"فالجملہ في ہذا أن جنس الصدقۃ یجوز صرفہا إلی المسلم …. ویجوز صرف التطوع إلیہم با الاتفاق وری عن أبي یوسف أنہ یجوز صرف الصدقات إلی الأغنیاء أذا سموا فی الوقف ۔فأما الصدقۃ علی وجہ الصلۃ والتطوع فلا بأس بہ، وفي الفتاوی العتابیۃ وکذلک یجوز النفل للغني".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی