سوال:
ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ! اگر میں فلاں کام کروں تو کافر اور مرتد ہوجاؤں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر اس نے یہ کام کر لیا تو کیا وہ مرتد ہوجائے گا؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: ۱) واضح رہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے: "اے اللہ! اگر میں فلاں کام کروں تو کافر اور مرتد ہو جاؤں" تو اتنا کہنے سے کافر نہیں ہوتا، اور اگر وہ کام کرلے تب بھی کافر نہیں ہوتا، البتہ اگر وہ سمجھتا ہو کہ یہ کام کرنے سے میں واقعی کافر ہوجاؤں گا، اور پھر بھی کفر پر راضی ہو کر وہ کام کرلے تو کافر ہوجائے گا۔
۲) چونکہ ان الفاظ سے قسم منعقد ہو گئی ہے اور وہ کام کرنے سے قسم ٹوٹ جائے گی جس کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا، قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو صبح شام (دو وقت) پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس مساکین میں سے ہر مسکین کو پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدی جائے، یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیدیا جائے، اور اگر قسم کھانے والا غریب ہے اور مذکورہ امور میں سے کسی پر اس کو استطاعت نہیں ہے تو پھر قسم کے کفارے کی نیت سے مسلسل تین دن تک روزے رکھنے سے بھی قسم کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔
نیز جذبات میں آکر اس طرح کی قسمیں کھانا بہت ہی غیر مناسب حرکت ہے، اس عمل پر ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار کرنا چاہیے، ایمان کی دولت کی حفاظت ہر قیمت پر کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 89)
"فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ“....الآیة".
الدر المختار مع رد المحتار: (718/3، ط: دار الفکر)
"(و) القسم أيضا بقوله (إن فعل كذا فهو) يهودي أو نصراني أو فاشهدوا علي بالنصرانية أو شريك للكفار أو (كافر) فيكفر بحنثه لو في المستقبل، أما الماضي عالما بخلافه فغموس.
واختلف في كفره (و) الأصح أن الحالف (لم يكفر) سواء (علقه بماض أو آت) إن كان عنده في اعتقاده أنه (يمين وإن كان) جاهلا. و (عنده أنه يكفر في الحلف) بالغموس وبمباشرة الشرط في المستقبل (يكفر فيهما) لرضاه بالكفر.
(قوله وعنده أنه يكفر) عطف تفسير على قوله جاهلا. وعبارة الفتح: وإن كان في اعتقاده أنه يكفر به يكفر لأنه رضي بالكفر حيث أقدم على الفعل الذي علق عليه كفره وهو يعتقد أنه يكفر إذا فعله اه".
الفتاوى الهندية: (54/2، ط: دار الفکر)
"ولو قال: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني، أو مجوسي، أو بريء من الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرًا فهو يمين استحسانًا، كذا في البدائع.
حتى لو فعل ذلك الفعل يلزمه الكفارة، وهل يصير كافرًا؟ اختلف المشايخ فيه، قال: شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: والمختار للفتوى أنه إن كان عنده أنه يكفر متى أتى بهذا الشرط، ومع هذا أتى يصير كافرًا لرضاه بالكفر".
فتاوی عثمانی: (500/2، مکتبہ معارف القرآن کراچی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی