سوال:
السلام علیکم، محترم مفتی صاحب ! ایک لڑکی مدرسے میں پڑھ رہی ہے، اس کے بال بہت لمبے ہیں، جس کا سنبھالنا اس کے لیے بہت دشوار ہے اور وہ لڑکی کمزور بھی ہے تو کیا اس کے لیے بال کٹوانا جائز ہے؟
جواب: شریعت نے عورتوں کے لمبے اور گھنے بالوں کو زینت کا باعث قرار دیا ہے، لہٰذا بغیر کسی عذر کے بالوں کو چھوٹا کرنے سے احتراز کرنا چاہیے، لیکن اگر بال اس قدر گھنے اور لمبے ہوں جو سرین (کولہے) سے بھی نیچے ہوجائیں، اور ان کو سنبھالنے میں غیر معمولی دشواری اور الجھن کا سامنا ہو، تو اس مجبوری کی وجہ سے سرین (کولہے) سے نیچے کے بالوں کو کاٹنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوۃ المصابیح: (ص: 233)
عن علی وعائشۃ قالا: نھی رسول اﷲ ﷺ ان تحلق المرأۃ راسھا، رواہ الترمذی۔
الدر المختار: (407/6)
وفيه قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت زاد في البزازية وإن بإذن الزوج لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ولذا يحرم على الرجل قطع لحيته والمعنى المؤثر التشبه بالرجال اھ۔
الطحطاوی: (203/4)
قولہ اثمت محمول علی ما اذا قصدت التشبہ بالرجال وان کان لوجع اصابھا فلا بأس بہ کذا فی الھندیۃ عن الکبریٰ۔
فتاویٰ رحیمیة: (120/10)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی