سوال:
السلام علیکم، حضرت ! نبیذ کے متعلق علماء کرام کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں؟
جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ کھجور، کشمش یا کسی بھی پھل کا نبیذ پینا جائز اور حلال ہے، بلکہ نبیذ پینا سنت بھی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ازواجِ مطہّرات (رضی اللہ عنھن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے نبیذ بنایا کرتی تھیں، چنانچہ مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (چمڑے کے) مشکیزہ میں نبیذ بنایا کرتے تھے، اور ایک مٹھی کشمش یا کھجور لے لیا کرتے تھے، جسے ہم مشکیزہ میں ڈال دیا کرتے تھے، پھر رات کو اس میں پانی ڈال دیا کرتے تھے ،جسے آپ دن میں پیتے تھے، یا دن کے وقت پانی ڈال دیتے تھے، جسے آپ رات میں پیتے تھے۔ (مسند احمد)
البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جن ذرائع سے نبیذ بنتا ہے، انہی ذرائع سے شراب بھی بنتی ہے، لہذا نبیذ بنانے کے بعد اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ نبیذ اتنے دن تک باقی نہ رکھے، جس میں گاڑھا پن آنے کی وجہ سے نشہ پیدا ہوجائے، ورنہ ایسی صورت میں اس کا پینا جائز نہیں ہوگا۔
چنانچہ ابوعمر المھرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عبّاس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے رات میں نبیذ بنائی جاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اگلے روز نوش فرماتے، پھر آنے والی رات کو بھی پیتے، پھر اگلےدن اور رات کو بھی استعمال فرماتے، پھر تیسرے دن کی عصر تک استعمال فرماتے، اگر پھر بھی کچھ بچ جاتا تو خادم کو پلادیتے یا آپ اسے گرانے کا حکم دیتے۔ (صحیح مسلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند أحمد: (رقم الحدیث: 24198، ط: مؤسسة الرسالة)
عن عائشة، قالت: " كنا ننبذ للنبي صلى الله عليه وسلم في سقاء، فنأخذ قبضة من زبيب، أو قبضة من تمر فنطرحها في السقاء، ثم نصب عليها الماء ليلا، فيشربه نهارا أو نهارا فيشربه ليلا ۔
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2004، 1589/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن يحيى بن عبيد أبي عمر البهراني، قال: سمعت ابن عباس، يقول: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينتبذ له أول الليل، فيشربه إذا أصبح يومه ذلك، والليلة التي تجيء، والغد والليلة الأخرى، والغد إلى العصر، فإن بقي شيء سقاه الخادم، أو أمر به فصب.
رد المحتار: (کتاب الاشربة، 453/6، ط: دار الفکر)
قال الأتقاني: وقد أطنب الكرخي في رواية الآثار عن الصحابة والتابعين بالأسانيد الصحاح في تحليل النبيذ الشديد. والحاصل أن الأكابر من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهل بدر ، كعمر ،وعلي، وعبد الله بن مسعود، وأبي مسعود ( رضي الله عنهم) كانوا يحلونه، وكذا الشعبي وإبراهيم النخعي. وروي ان الإمام قال لبعض تلامذته: إن من احدى شرائط أهل السنة والجماعة أن لا يحرم نبيذ الجر اه. وفي المعراج قال أبو حنيفة: لو أعطيت الدنيا بحذافيرها لا أفتي بحرمتها؛ لأن فيه تفسيق بعض الصحابة، ولو أعطيت الدنيا لشربها لا أشربها؛ لأنه لا ضرورة فيه، وهذا غاية تقواه اه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی