سوال:
السلام علیکم، آج کل بینک اور مالیتی ادارے زکوة کٹوتی سے بچنے کے لئے یہ فارم CZ-50 جمع کرانے کے لئے کہتے ہیں، کیا یہ فقہ حنفی والوں کے لئے صحیح ہے، جب کہ ہم اپنی تمام زکوة اپنے طور پر ادا کرتے ہیں؟
جواب: جو شخص صاحب نصاب نہ ہو٬ وہ منسلکہ فارم کے ذریعے بینک/مالیاتی ادارے کو درخواست دے سکتا ہے کہ میں صاحبِ نصاب نہیں ہوں٬ مجھ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے٬ اس لئے میرے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ نہ کاٹی جائے٬ اس کی وجہ سے قانوناً اس کی رقم سے زکوٰۃ نہیں کاٹی جائے گی٬ اور شرعا بھی ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے.
لیکن جو شخص صاحب نصاب ہو٬ اس کیلئے مذکورہ فارم بینک/مالیاتی ادارے میں جمع کروانا شرعاً درست نہیں ہے٬ کیونکہ اس فارم میں حلفیہ طور پر کہا جارہا ہے کہ میرے مسلک کے مطابق مجھ پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے٬ جبکہ حقیقت میں اس پر زکوٰۃ لازم ہو٬ تو اس فارم کے ذریعے جھوٹ اور غلط بیانی کی جارہی ہوگی٬ جوکہ جائز نہیں.
لہذا ایسی صورت میں اس کا حل یہ ہے کہ بینک/مالیاتی ادارہ جس تاریخ کو زکوٰۃ کاٹتا ہے٬ آدمی اس تاریخ سے پہلے اپنی رقم وہاں سے نکال لے٬ اور اپنے طور پر حساب کرکے زکوٰۃ ادا کرے. یا پھر مذکورہ فارم کے علاوہ کوئی ایسی تحریر/ ایفیڈیوٹ(Affidavit) لکھ کر دے٬ جس میں بینک کو زکوٰۃ کاٹنے سے منع کیا گیا ہو٬ اور اس میں اس بات کا تذکرہ نہ ہو کہ مجھ پر زکوٰۃ لازم نہیں٬ تو ایسی تحریر یا فارم جمع کروایا جاسکتا ہے٬ تاکہ بینک زکوٰۃ کی کٹوتی نہ کرے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب قبح الکذب و حسن الصدق و فضله، رقم الحدیث: 105)
"عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: …. وإیاکم والکذب؛ فإن الکذب یہدي إلی الفجور، وإن الفجور یہدي إلی النار، وما یزال العبد یکذب ویتحری الکذب حتی یکتب عند اللّٰہ کذابا"
بدائع الصنائع: (53/2، ط: دار الکتب العلمیة)
"ان الزکوۃ عبادۃ عندنا والعبادۃ لا تتادی الا باختیار من علیہ، اما بمباشرتہ بنفسہ او بامرہ، وانابتہ غیرہ، فیقوم النائب مقامہ، فیصیر ھو مؤدیا بید النائب"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی