سوال:
بینک ملازمین کی تنخواہ جو خالصتاً سود یا پرافٹ سے دی جاتی ہیں، آیا وہ حلال ہے یا حرام ہے؟ دوسری بات یہ پوچھنی ہے کہ بینک ملازم اپنی آمدنی پر زکوۃ دے سکتے ہیں؟
جواب: غیر سودی بینک جو شریعت کے اصولوں کے مطابق مستند علماء کرام کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں٬ وہاں ملازمت کرنا شرعا درست ہے٬ اس کی تنخواہ بھی حلال ہوگی٬ لہذا اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی بشرطیکہ وجوب زکوۃ کی دیگر شرائط پائی جائیں.
سودی بینک کی ملازمت میں تفصیل یہ ہے کہ جس ملازمت کا تعلق براہ راست سودی معاملات سے ہو، جیسے منیجر اور کیشئیر وغیرہ کی ملازمت، ایسی ملازمت بالکل حرام اور ناجائز ہے٬ اور ایسی ملازمت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے، اور حرام آمدنی پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی.
لیکن سودی بینک کی وہ ملازمت جس کا تعلق براہ راست سودی معاملات سے نہ ہو، نہ اس کا تعلق سود کے لکھنے سے ہے، نہ سود پر گواہ بننے سے، اور نہ سودی معاملات میں کسی قسم کی شرکت ہوتی ہے، جیسے چوکیدار کی ملازمت، ایسی ملازمت اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے متعلق علماء کرام کی آراء مختلف ہیں:
ایک رائے یہ ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس کا سودی معاملات سے کسی قسم کاتعلق نہیں ، یہ بھی جائز نہیں، کیونکہ ایسے ملازمین کا اگر چہ سودی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں٬ لیکن انہیں جو تنخواہ دی جاتی ہے٬ وہ ان رقوم کے مجموعہ سے دی جاتی ہے جو بنک میں موجود ہوتی ہیں، اور اس میں سود بھی شامل ہوتا ہے، اس لئے ایسی ملازمت بھی جائز نہیں.
جب کہ دوسری رائے یہ ہے کہ بینک کی صرف ایسی ملازمت جس کا سودی معاملات سے کسی قسم کا تعلق نہیں، یہ جائز ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملازمین کو جو تنخواہ دی جاتی ہے٬ وہ اگر چہ ان رقوم کے مجموعہ سے دی جاتی ہے، جو بنک میں موجود ہوتی ہیں ، لیکن بنک میں موجود رقوم ساری کی ساری سودی نہیں ہوتیں، بلکہ اس میں کئی قسم کی رقمیں مخلوط ہوتی ہیں ، بنک میں موجود وہ رقوم بھی ہوتی ہیں جو لوگوں نے اپنے کھاتوں میں جمع کروائی ہوئی ہیں ،یعنی بنک نے وہ قرض کے طور پر لی ہوئی ہیں، اور وہ رقوم بھی ہوتی ہیں، جو بنک مالکان کا اصل سرمایہ ہیں، اور وہ رقوم بھی ہوتی ہیں، جو بطور سود کے حاصل کی گئی ہیں٬ لیکن بنک میں جمع شده ان مخلوط رقوم میں اکثر پہلی دوقسم کی ہوتی ہیں ،اور آخری قسم کی رقم ان کی بنسبت کم ہوتی ہے٬ اس لئے بنک میں موجود قوم میں اکثر رقوم حلال ہوتی ہیں ، لھذا اگر اس مجمومی مخلوط رقم سے ایسے ملازم کو تنخواہ دی جاتی ہے٬ جس کا سودی معاملات سےکسی قسم کا تعلق نہیں٬ تو اس کے لئے ملازمت اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ حرام اور نا جائز نہیں٬ (لہذا اس رقم پر دیگر شرائط کی موجودگی میں زکوۃ بھی لازم ہوگی) البتہ بہتر یہی ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت بھی اختیار نہ کی جائے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب لعن آکل الربا و موکله، رقم الحدیث: 106)
"لعن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آكل الربوا وموكله وكاتبه وشاهديه و قال: هم سواء “
الھدایة: (238/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
"ولا يجوز الاستئجار على الغناء والنوح، وكذا سائر الملاهي"؛ لأنه استئجار على المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد.
البحر الرائق: (23/8، ط: دار الکتاب الاسلامی)
قال - رحمه الله - (ولا يجوز على الغناء والنوح والملاهي) ؛ لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجرة من غير أن يستحق عليه؛ لأن المبادلة لا تكون إلا عند الاستحقاق وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه
الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (290/1، ط: دار السلاسل)
الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة وعقدها باطل لا يستحق به أجرة.
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 1434/23
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی