سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی کی ملکیت میں کیکر یعنی کانٹے دار درخت ہیں۔ بعض لوگ ان کو تجارت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کاشت کرتے ہیں اور بعض لوگ ان کو اپنی حالت پر چھوڑتے ہیں، جبکہ ان کا ایک درخت 500 روپے کا ہے۔ کیا ان میں عشر واجب ہے؟ اگر زمین اس کو خود اُگائے اس صورت میں کیا حکم ہے؟
جواب: مذکورہ درختوں کو لگانے کا مقصد اگر ان کی تجارت ہی ہے یا ان کو لگانے سے اپنی زمین کو قیمتی بنانا مقصود ہے، تب تو ان میں عشر ہے، لیکن یہ عشر اس وقت واجب ہوگا، جب ان درختوں کو کاٹ کر استعمال میں لایا جائے۔ بصورت دیگر جو لوگ ان کو اپنی حالت پر چھوڑتے ہیں، ان پر عشر واجب نہیں ہے۔ اگر یہ درخت خودرو ہوں، یعنی بغیر کسی کے اگانے کے اگے ہوں، تب ان پر عشر واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (325/2، ط: دار الفکر)
باب العشر (يجب) العشر (في عسل) وإن قل (أرض غير الخراج) ولو غير عشرية كجبل ومفازة بخلاف الخراجية لئلا يجتمع العشر والخراج (وكذا) يجب العشر (في ثمرة جبل أو مفازة إن حماه الإمام) لأنه مال مقصود لا إن لم يحمه لأنه كالصيد۔۔۔۔۔(إلا فيهما) لا يقصد به استغلال الأرض (نحو حطب وقصب) فارسي (وحشيش) وتبن وسعف
(قوله: إلا فيما لا يقصد إلخ) أشار إلى أن ما اقتصر عليه المصنف كالكنز وغيره ليس المراد به ذاته بل لكونه من جنس ما لا يقصد به استغلال الأرض غالبا وأن المدار على القصد حتى لو قصد به ذلك وجب العشر كما صرح به بعده.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی