سوال:
اگر چار نا تجربہ کار افراد پیسے جمع کرکے ایک ہوٹل کو بطور بزنس خریدتے ہیں، پھر ایک تجربہ یافتہ پانچویں شخص کو ہوٹل چلانے کے لیے اپنے ساتھ ملاتے ہیں، پانچواں شخص اپنے تجربے اور محنت کے عوض بغیر کوئی پیسہ ملائے 20 فیصد ہوٹل کی ملکیت کے حقوق اور 20 فیصد منافع میں سے حصہ مانگتا ہے تو کیا یہ لیں دین شرعی اعتبار سے درست ہو گا؟
جواب: سوال میں مذکور "مشترکہ کاروبار" کی صورت شرعا درست نہیں ہے، تاہم اگر تمام شرکاء بخوشی اپنے مشترکہ ہوٹل کا %20 فیصد، اس شخص کو فروخت کر دیں اور پھر وہ اس حصے کی قیمت کی ادائیگی ان کو بعد میں کر دے(حسب معاھدہ فروخت) ، یا وہ سب شرکاء اپنے ہوٹل کے %20 فیصد حصے کی قیمت اسے معاف کر دیں(گویا ان کی طرف سے یہ حصہ گفٹ ہو جائے گا)، تو ایسا کرنا ان کے لیے جائز ہے، پھر وہ شخص حسب معاھدہ شرکت، نفع ونقصان میں سے %20 فیصد کی شرط کے ساتھ اس کاروبار میں شراکت داری کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (کتاب الإجارۃ، الباب الخامس عشر، 445/4- 446)
"ولو استأجر عبداً بنصف ربح ما یتجر أو رجلاً یرعی غنمًا بلبنہا أو بعض لبنہا أو صوفہا لم یجز ویجب أجر المثل - إلی قولہ - والحیلۃ في جنس ہٰذہ المسائل أن یبیع صاحب البیضۃ نصف البیضۃ وصاحب الدجاجۃ نصف الدجاجۃ من المدفوع إلیہ ویبرأہ عن ثمن ما اشتریٰ فیکون الخارج بینہما، کذا في المحیط".
و فیها أیضا: (الباب الخامس في الشرکة الفاسدۃ، 336/2)
"وعلی ہذا إذا دفع البقرۃ إلی إنسان بالعلف لیکون الحادث بینہما نصفین، فما حدث فہو لصاحب البقرۃ، ولذلک الرجل مثل العلف الذي علفہا وأجر مثلہ فیما قام علیہا، والحیلۃ في ذلک أن یبیع نصف البقرۃ من ذلک الرجل بثمن معلوم حتی تصیر البقرۃ وأجناسہا مشترکۃ بینہما فیکون الحادث منہا علی الشرکۃ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی