سوال:
وکیل کو زکوة دیتے ہوئے مصرف متعین کردیا، مثلاً یہ کہا کہ یہ دس من آٹا جو زکوة کی مد میں ہے، اس کو بارش سے متاثرین افراد میں تقسیم کر دو، ابھی تک تقسیم نہیں کیا کہ بارشیں ختم ہوگئیں، تو کیا اس آٹے کو مدرسے کے مستحق طلبہ میں دیا جا سکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مؤکل (جس نے زکوۃ کے پیسے دیئے ہیں) کی اجازت کے بغیر زکوۃ کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا درست نہیں ہے۔، اگر دوسرے مصرف میں استعمال کرنا ہو، تو مؤکل سے باقاعدہ اسکی اجازت لے لی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (269/2)
وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلايملك الدفع إلى غيره، كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره، فتأمل".
الفتاویٰ التاتارخانیة: (288/3، ط: زکریا)
سئل عمر الحافظ رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال لہ ہٰذا زکٰوۃ مالي فأدفعہا إلی فلان، فدفعہا الوکیل إلی الآخر، ہل یضمن؟ فقال نعم، لہ التعیین۔ ل
الاشباہ و النظائر: (243/1، ط: دار الکتب العلمیة)
لا يجوز التصرف في مال غيره بغير إذنه ولا ولاية إلا في مسألة في السراجية: يجوز للولد والوالد الشراء من مال المريض ما يحتاج إليه بغير إذنه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی