سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ والد نے اپنی حیات ہی میں بیٹوں کے درمیان اپنی جائیداد کو تقسیم کیا اور اپنی بیٹیوں کو اس میں سے کچھ بھی نہ دیا تو والد کی فوتگی کے بعد اگر بھائی اپی بہنوں کو حصہ نہ دیں، تو وہ گنہگار ہوں گے یا نہیں؟ اگر گنہگار نہیں ہوں گے تو وجہ کیا ہے؟
جواب: والد کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کررہا ہے اس میں بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان مساوات کرے، مذکورہ صورت میں والد بیٹیوں کو محروم کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوا اور ظلم و جور کا مرتکب ہوا، پھر اگر والد نے لڑکوں کے درمیان جائیداد تقسیم کرکے ان کو قبضہ بھی دے دیا اور ہر قسم کے تصرف کا حق بھی ان کو حاصل ہوگیا، تو اس صورت میں والد کے انتقال کے بعد لڑکیاں اس جائیداد میں اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کرسکتیں، کیونکہ لڑکے اب اس جائیداد کے مالک ہیں۔ ہاں! اگر وہ لائق بیٹے اپنے والد صاحب کو اس عذاب سے بچانا چاہتے ہیں، تو انہیں چاہیے کہ اس جائیداد سے دستبردار ہوجائیں اور شرعی وارثوں کو ان کا حصہ دے دیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو لڑکوں پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکاۃ المصابیح: (باب العطایا، 261/1، ط: قدیمي)
'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔
رد المحتار: (444/4، ط: دار الفکر)
" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اه".
بدائع الصنائع: (127/6، ط: دار الکتب العلمیة)
أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض.
الھندیۃ: (167/2، ط: دار الفکر)
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی