سوال:
ایک شخص آن لائن چیزیں فروخت کرتا ہے، بیچنے والا اپنے پاس بہت کم یا زیرو فیصد سامان رکھتا ہے، جب کسٹمرز فیس بک یا دراز پر کوئی چیز دیکھ کر اپنا آرڈر بک کرواتا ہے، تو وہ شخص آرڈر لے کر مارکیٹ سے وہ چیز خرید کر اس کسٹمرز کو دے کر اس کی قیمت وصول کر لیتا ہے، تو کیا اس طرح تجارت کرنا درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جو چیز ملکیت اور قبضہ (Possession) میں نہ ہو٬ اسے آگے فروخت نہیں کرسکتے٬ البتہ اس مرحلہ پر خرید و فروخت کا وعدہ کیا جاسکتا ہے٬ کہ میں آپ کو فلاں چیز فروخت کروں گا٬ پھر ملکیت اور قبضہ حاصل ہونے کے بعد اسے باقاعدہ فروخت کیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ بیچی جانے والی چیز (Product) فروخت کرنے والی کی ملکیت میں نہیں ہوتی٬ بلکہ آرڈر ملنے کے بعد فروخت کرنے والا اسے خرید کر آگے بھیجتا ہے٬ اس لئے آرڈر لینے کے مرحلہ میں حتمی خرید فروخت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے٬ بلکہ یہ وعدہ کے درجے میں ہو کہ فلاں تاریخ تک آپ کو فلاں چیز فروخت کروں گا٬ پھر جب وہ چیز خرید کر کسٹمر کو روانہ کریں گے٬ اور کسٹمر وصول کرلے٬ تو اس وقت عملی طور پر (تعاطی کے ذریعے) معاملہ مکمل سمجھا جائے گا٬ ایسی صورت میں کسٹمر تک مال پہنچنے سے پہلے راستے کا رسک (Risk) بھی فروخت کرنے والے کا ہوگا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، رقم الحدیث: 3720)
"عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من ابتاع طعامًا فلا یبعہ حتی یستوفیہ، قال ابن عباس: وأحسب کل شيء مثلہ"
سنن أبي داؤد: (رقم الحدیث: 3503)
"عن حکیم بن حزام رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تبع ما لیس عندک"
مرقاۃ المفاتیح: (باب المنہی عنہا من البیوع، 78/6، ط: دار الکتب العلمیة)
"وقال القاري: قولہ: ’’لا تبع ما لیس عندک‘‘ أي شیئًا لیس في ملک حال العقد"
السنن الکبریٰ للنسائي:
"عن حکیم بن حزام رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: قلت یا رسول اللّٰہ! إني رجل ابتاع ہٰذہ البیوع وأبیعہا فما یحل لي ہٰہنا وما یحرم؟ قال: لا تبیعن شیئًا تقبضہ"
بدائع الصنائع: (الموضوع القبض فی بیع المشتري المنقول، 394/4، ط: زکریا)
"ومنہا: القبض في بیع المشتري المنقول، فلا یصح بیعہ قبل القبض،لما روي أن النبي علیہ السلام نہیٰ عن بیع ما لم یقبض"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی