سوال:
السلام علیکم، ایک مسئلے کے بارے میں رہنمائی درکار ہے۔
عام مارکیٹ میں ایک طریقہ کار رائج ہے کہ آپ مارکیٹ میں کوئی دکان وغیرہ کرایہ پر لینا چاہتے ہو تو وہ کچھ رقم بطور ضمانت لیتے ہیں، پھر اسکی دو صورتیں ہوتی ہیں:
ایک یہ کہ دکان چھوڑنے پر واپس کرتے ہیں اور دوسری صورت میں ناقابل واپسی ہوتی ہے،
دونوں صورتوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
نیز یہ بھی فرمادیں کہ وہ رقم دکان کا مالک اپنے اخراجات، کاروبار یا اکثر اسی پیسوں سے مارکیٹ کی تعمیر کرتے ہیں، اس کی کیا حیثیت ہوگی؟
جواب: دوکان یا مکان وغیرہ کرایہ پر لینے کی صورت میں مالک مکان کا ضمانت کے طور پر کرایہ دار سے ایڈواس رقم لینا جائز ہے٬ یہ رقم ابتداء امانت ہوتی ہے٬ جسے اصولاً مالک مکان کو استعمال کرنے کا حق حاصل نہیں٬ لیکن آجکل عمل اور عرف یہ ہے کہ مالک مکان اس رقم کو استعمال کرتا ہے٬ اور کرایہ دار کی طرف سے دلالۃً اس کی اجازت ہوتی ہے٬ اس لئے وہ رقم بالآخر مالک مکان کے ذمہ قرض بن جاتی ہے٬ اس لئے اس رقم کو وہ اپنے استعمال میں لا سکتا ہے.
واضح رہے کہ اس قرض (ضمانت کی رقم) کی وجہ سے ماہانہ کرایہ میں معروف کرایہ سے کمی کی شرط لگانا جائز نہیں٬ کیونکہ یہ قرض پر نفع لینے کی ایک صورت ہے٬ جسے حدیث مبارکہ میں سود قرار دیا گیا ہے.
جہاں تک اس رقم کی واپسی کا تعلق ہے٬ تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ کرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے کے وقت اگر کرایہ دار نے جان بوجھ کر یا غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے اس مکان کو کوئی نقصان پہنچایا ہو٬ تو ہونے والے حقیقی نقصان کی تلافی اس ضمانت کی رقم سے کی جاسکتی ہے٬ باقی رقم کرایہ دار کو واپس کرنا شرعا ضروری ہے٬ بلا وجہ شرعی اس رقم کو ضبط کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف ابن أبي شیبة: (648/10، ط: بیروت)
"کل قرض جر منفعۃ فہو ربا"
رد المحتار: (395/7، ط: زکریا)
"كل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا"
الفتاویٰ التاتارخانیة: (رقم: 24172، 54/16، ط: زکریا)
"المودع إذا خلط الودیعۃ بمالہ أو بودیعۃ أخری بحیث لا یتمیز ضمن"
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، رقم الحدیث: 255)
"عن ابی حرۃ الرقاشی عن عمہ قال قال رسول اللہﷺ : الا لا تظلموا الا لا یحل مال امریٔ الا بطیب نفس منہ"
فقه البیوع: (120/1- 121، ط: معارف القرآن)
"وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم ان احد طرفی العقد یطالب بدفع بعض المال عند الوعد بالبیع قبل انجاز العقد٬ وذالک للتاکد من جدیتہ فی التعامل...ویسمی فی العرف "ہامش الجدية" او "ضمان الجدية".... وانما ہی امانة بید البائع٬ تجری علیہ احکام الامانات. ولا یجوز لآخذہا ان یتمولہا لنفسہ٬ ولایجوز استثمارھا الا باذن مالکہا٬ بشرط ان یکون الربح لہ٬ وکذالک یجب رد ھذا المبلغ الیہ ان لم یتم انجاز العقد معہ......... ولا یجوز للموسسة حجز مبلغ ہامش الجدية فی حالة نکول العمیل عند تنفیذ وعد الملزم. وینحصر حقھا فی اقتطاع مقدار الضرر الفعلی المتحقق نتيجة النکول..."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی