resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ربنا لك الحمد سے متعلق روایت کی تخریج اور ربنا لک الحمد پڑھنے کا حکم(5887-No)

سوال: مفتی صاحب ! سنا ہے کہ رکوع کے بعد ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیه پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، کیا یہ حدیث صحیح ہے اور کیا اس کو پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: رکوع کی بعد کی تسبیح ’’ ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه‘‘’’صحیح ‘‘ حدیث سے ثابت ہے اور اس کو نمازوں میں پڑھ سکتے ہیں ،البتہ فرض نماز میں ’’ربنا لک الحمد‘‘پر اکتفا کرنا بہتر ہے۔
اس روایت کا ترجمہ،تخریج ،اسنادی حیثیت اور رکو ع کے بعد کی تسبیح کا حکم مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:
حضرت رفاعہ بن رافع زرقی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر سمع الله لمن حمده کہا تو ایک شخص نے (بآواز بلند) ( ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه) پڑھا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’یہ کلمات کس نے کہے تھے؟‘‘ وہ شخص بولا: میں نے پڑھے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کی طرف لپک رہے تھے کہ کون انہیں پہلے لکھے۔(بخاری ،حدیث نمبر: 799)
تخریج الحدیث :
۱۔امام بخاری (م 256ھ) نے ’’صحیح بخاری‘‘(1/159)،رقم الحدیث:799،ط:داراطوق النجاۃ) میں ذکرکیا ہے۔
۲۔ امام مالک (م 179ھ) نے ’’موطأ‘‘ (2/295)،رقم الحدیث: 718،ط: : مؤسسة زايد بن سلطان) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔امام أبو داؤد(م275 ھ)نے ’’سنن أبی داؤد ‘‘ (2/79)، رقم الحدیث: 770،ط: دار الرسالة العالمية) میں ذکر کیا ہے۔
۴۔امام ترمذی(م 279 ھ)نے’’سنن الترمذی‘‘(2/254)،رقم الحدیث : 404،ط: شركة مصطفى البابي الحلبي) میں ذکر کیا ہے۔
۵۔امام بزار (م 292ھ)نے ’’مسند بزار‘‘(9/183)،رقم الحدیث: 3732،ط:مكتبة العلوم والحكم ) میں ذکر کیا ہے۔
۶۔امام نسائی (م303 ھ)نے’’سنن النسائی ‘‘(2/ 145)،رقم الحدیث: 1062،931، ،ط: مكتب المطبوعات الإسلامية )اور’’السنن الکبری‘‘(1/333)،رقم الحدیث: 653،ط: مؤسسة الرسالة ) میں ذکر کیا ہے۔
۷۔حافظ ابن خزیمہ(م 311ھ)نے’’صحیح ابن خزیمہ‘‘(1/311)،رقم الحدیث: 614،ط:المکتب الاسلامی) میں ذکر کیا ہے۔
۸۔امام طبرانی (م360 ھ) نے ’’المعجم الکبیر‘‘(5/40)،رقم الحدیث: 4531،4532،ط: مكتبة ابن تيمية) میں ذکر کیا ہے۔
۹۔امام حاکم (م 405 ھ)نے’’المستدرک ‘‘(1/348)،رقم الحدیث: 819،ط: دار الكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
۱۰۔امام ابن حبان (م 354ھ)نے’’صحیح ابن حبان‘‘(5/ 235)،رقم الحدیث: 1910،ط: مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
۱۱۔امام بیہقی(م 458ھ)نے ’’السنن الکبری‘‘(2/ 136)،رقم الحدیث: 2610،2611،ط:دارالکتب العلمیة) میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
امام حاکم (م 405 ھ) نے اس روایت کو’’صحیح‘‘ کہا ہے اور امام ذہبی (م 748ھ)نے ان کی تائید کی ہے۔
رکوع کے بعد کی تسبیح کا حکم:
واضح رہے کہ قومہ کی حمد کے بارے چار طرح کے الفاظ منقول ہیں :
ربَّنا ولك الحمدُ.-
ربَّنا لك الحمدُ.-
اللهمَّ ربَّنا لك الحمدُ.-
اللهمَّ ربَّنا ولك الحمدُ.-
سب سے افضل '' اللھم ربنا ولک الحمد '' ہے ، پھر '' اللھم ربنا لک الحمد '' ، پھر '' ربنا ولک الحمد '' '' ربنا لک الحمد ''،لہذامذکورہ الفاظ میں سے جو لفظ پڑھے، درست ہے، سنت ادا ہوجائے گی، البتہ احناف کے نزدیک صرف فرض نمازوں میں ربنا لک الحمد ہی پر اکتفاء کرنا بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 799، 159/1، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أبي هُرَيرةَ رضيَ اللهُ عنه، قال:كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا قام إلى الصَّلاةِ، يكبِّرُ حين يقومُ، ثم يكبِّرُ حين يركَعُ، ثم يقولُ: سمِعَ اللهُ لِمَن حمِدَه، حين يرفَعُ صُلبَه مِن الرَّكعةِ، ثم يقولُ وهو قائمٌ: ربَّنا لك الحمدُ- قال عبدُ اللهِ: ولك الحمدُ ثم يُكبِّرُ حين يَهْوِي، ثم يكبِّرُ حين يرفَعُ رأسَه، ثم يكبِّرُ حين يسجُدُ، ثم يكبِّرُ حين يرفَعُ رأسَه، ثم يفعَلُ ذلك في الصَّلاةِ كلِّها حتَّى يقضيَها، ويُكبِّرُ حين يقومُ مِن الثِّنتَيْنِ بعد الجلوسِ.
وهذا الحديث أخرجه الإمام مالك في ’’الموطأ‘‘(2/295)( 718) و أبو داؤدفي ’’سننه‘‘(2/79) (770)والترمذي في ’’سننه‘‘(2/254)( 404)والبزار في ’’مسنده‘‘(9/183)( 3732) و النسائي في ’’المجتبي ‘‘(2/ 145)( 1062)(931) و في ’’سننه الکبری‘‘(1/333)( 653) وابن خزيمة في ’’صحيحه‘‘(1/311)( 614)والطبراني في ’’المعجم الكبير‘‘(5/40)(4531)(4532)والحاكم في ’’المستدرك ‘‘(1/348)(819)و ابن حبان في ’’صحيحه‘‘(5/ 235)(1910) والبيهقي في ’’سننه الكبير‘‘(2/ 136) ( 2610)(2611)

المستدرك للحاکم: (رقم الحدیث: 819، 348/1، ط: دار الکتب العلمیة)
وهذا الحديث أخرجه الإمام الحاکم و قال هذا حديث صحيح من حديث المدنيين ولم يخرجاه» ووافقه الذهبي

البحر الرائق: (335/1، ط: دار الكتاب الإسلامي)
والمراد بالتحميد واحد من أربعة ألفاظ: أفضلها: اللهم ربنا ولك الحمد كما في المجتبى ويليه: اللهم ربنا لك الحمد، ويليه: ربنا ولك الحمد، ويليه المعروف: ربنا لك الحمد، فما في المحيط من أفضلية الثاني فمحمول على أفضليته على ما بعده لا على الكل كما لا يخفى لما صرحوا به من أن زيادة الواو توجب الأفضلية واختلفوا فيها: فقيل زائدة، وقيل: عاطفة تقديره ربنا حمدناك ولك الحمد

مجمع الأنهر: (96/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
واختلفت الأخبار في لفظ التحميد ففي بعضها اللهم ربنا لك الحمد وفي بعضها ربنا لك الحمد، وفي بعضها ربنا استجب، ولك الحمد، وفي بعضها الله ربنا ولك الحمد، والأول أفضل والثاني المشهور في كتب الحديث وهو الصحيح

كذا في’’ تبيين الحقائق‘‘ (116/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

rabbana laka alhumd say mutalliq riwayat ki takhreej or rabbana lakalhamd parne ka hukum, Confirmation of Hadith, Hadees, Narration regarding / related to Rabbna Lak Al-Hamd / lakaal humdand the command to recite Rabbna Lak Al-Hamd / lakaal hamd

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees