سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! پوچھنا یہ تھا کہ شادی ہال میں جو کھانے کی ارینجمنٹ کی بکنگ ہوتی ہے، وہ فی بندہ 500 کے حساب سے ہوتی ہے، تو کیا جو شادی ہال والے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، وہ کھانا ہال والوں کا ہوگا یا جنھوں نے بک کرایا ہے، ان کا ہوگا؟ نیز جو لڑکے ہال میں کام کرتے ہیں، وہ کھانا اپنے ہال انتظامیہ کو بتا کر بکنگ والوں (جن کی شادی ہے) کی مرضی کے بغیر لا سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ کھانے کا آرڈر دینے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں، ذیل میں انہیں بالترتیب ذکر کیا جاتا ہے:
1- اگر شادی ہال والوں سے فی بندہ (Per Head) مثلاً: 200 روپے کے حساب سے معاملہ طے ہوا کہ جتنے افراد آئیں گے٬ انہیں کھانا کھلانا شادی ہال والوں کی ذمہ داری ہوگی، جب تقریب ختم ہو گی، تو جتنے افراد نے شرکت کی ہوگی، ان کے حساب سے کھانے کا بل ادا کیا جائے گا اور باقی بچا ہوا کھانا، شادی ہال والوں کی ملکیت ہوگا اور ہال میں کام کرنے والے افراد، ہال والوں کی اجازت سے کھانا کھائیں گے۔
2- دوسری صورت یہ ہے کہ کھانے کا آرڈر فی بندہ(Per Head) مثلاً 200 روپے کے حساب سے دیا جائے اور اپنے افراد کی تعداد مثلا: دو سو افراد بتا کر کھانے کا پورا بل مثلاً: 40000 روپے ادا کر دیے جائیں، تو ایسی صورت میں یہ کھانا شادی والوں کا ہوگا، لہذا باقی بچا ہوا کھانا شادی والے چاہیں تو وہ اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں، چاہے تو وہ شادی ہال والوں کو ہی گفٹ کر دیں یا بیچ دیں اور ہال میں کام کرنے والے افراد شادی والوں سے پوچھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔
3- کھانے کا آرڈر وزن کے حساب سے دیا جائے، مثلاً: گوشت، چاول اور میٹھے کے وزن کے حساب سے کھانا پکانے کا آرڈر دیا گیا ہو، تو اس صورت میں بھی کھانا شادی والوں کا ہوگا، باقی بچا ہوا کھانا، انہی کی ملکیت ہو گا اور ہال کے اندر کام کرنے والے ان کی اجازت سے کھانا کھائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تكملة فتح الملهم: (کتاب البیوع، 31/1، ط: دار العلوم کراتشی)
"وأجمعوا علي جواز دخول الحمام بالأجرة مع اختلاف الناس في استعمالهم المائ وفي قدر مكثهم، وأجمعوا علي جواز الشرب من السقائ بالعوض مع جهالة قدر المشروب واختلاف عادة الشاربين وعكس هذا.
قال العبد الضعيف عفا الله عنه : ويخرج علي هذا كثير من المسائل في عصرنا فقد جرت العادة في بعض الفنادق الكبيرة أنهم يضعون أنواعًا من الأطعمة في قدور كبيرة، ويخيرون المشتري في أكل ما شائ بقدر ما شائ، ويأخذون ثمنًا واحدًا معينًا من كل أحد، فالقياس أن لايجوز البيع ؛ لجهالة الأطعمة المبيعة وقدرها، ولكنه يجوز ؛ لأن الجهالة يسيرة غير مفضية إلي النزاع، وقد جري بها العرف والتعامل".
المبسوط للسرخسی: (74/8)
"وإنما جوزنا الاستصناع فیما فیہ تعامل ففیما لا تعامل نأخذ بأصل القیاس".
الھندیة: (207/3)
"ثم إنما جاز الاستصناع فیما للناس فیہ تعامل إذا بین وصفا علی وجہ یحصل التعریف، أما فیما لا تعامل فیہ … لم یجز".
بدائع الصنائع: (94/4)
"وأما شرائط جوازہ، فمنہا بیان جنس المصنوع ونوعہ وقدرہ وصفتہ؛ لأنہ لا یصیر معلوماً بدونہ، ومنہا أن یکون مما یجري فیہ التعامل بین الناس من أواني الحدید والرصاص والنحاس والزجاج والخفاف والنعال ولجم الحدید للدواب ونصول السیوف والسکاکین والقسی والنبل والسلاح کلہ الطشت والقمقمۃ ونحو ذٰلک، ولا یجوز في الثیاب؛ لأن القیاس یأبی جوازہ، وإنما جوازہ استحساناً لتعامل الناس ولا تعامل في الثیاب".
الھندیة: (الباب التاسع عشر في القرض و الاستقراض و الاستصناع)
وَلَا يَتَعَيَّنُ إلَّا بِالِاخْتِيَارِ حَتَّى لَوْ بَاعَهُ الصَّانِعُ قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ الْمُسْتَصْنِعُ جَازَ هَذَا هُوَ الصَّحِيحُ هَكَذَا فِي الْهِدَايَةِ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی