سوال:
السلام علیکم، جناب مفتی صاحب ! شریعت میں کیا ساس کو اس کا اختیار دیا ہے کہ وہ بہو کی کھانا بنانے کی ڈیوٹی لگائے؟
جواب: واضح رہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اور سسرالی رشتے کی مضبوطی اخلاقیات، اور باہمی ہمدردی کے ساتھ ہی قائم رہ سکتی ہے، شریعت نے کچھ چیزیں میاں بیوی پر لازم نہیں کیں، لیکن اخلاقی طور پر اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کی خدمت اور ان کا ادب واحترام کریں گے تو دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی عزت اور احترام بڑھے گا، اور ازدواجی زندگی میں مزید استحکام پیدا ہوگا۔
البتہ اتنی بات ضروری ہے کہ شرعی قانون کے مطابق ساس کا اپنی بہو سے زبردستی خدمت کروانا اور اس سے زبردستی کوئی کام لینا درست نہیں ہے، بلکہ ساس بہو کو اپنی بیٹی کی طرح اور بہو اپنی ساس کو ماں کی طرح سمجھ کر ایک دوسرے کے ساتھ معاملات طے کریں گیں، تو گھریلو زندگی ہمیشہ خوش گوار رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الخانية على هامش الھندیة: (باب النفقة، 443/1)
و لیس علیھا أن تعمل بيدها شيئا لزوجها قضاء من الخبز والطبخ وكنس البيت وغير ذلک.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی