سوال:
شیئرز کے کاروبار میں دو طریقوں سے پیسہ کمایا جاتا ہے:
(1) شیئرز کی قیمت بڑے تو فروخت کردیں۔
(2) کمپنی منافع دے۔
عام طور سے کمپنی منافع کو شیئر ہولڈرز کے کھاتے میں ڈالتی ہے، اور اس کا کم حصہ بانٹا جاتا ہے، اور زیادہ حصہ واپس کاروبار میں لگادیتے ہیں، اور منافع واپس شیئرز ہولڈر کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، پورا نفع عام طور سے کمپنی کے بند ہونے اور سارا ادھار ادا کرنے کے بعد ہی شیئرز ہولڈرز کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کپمنی عام طور پر سرمایہ بینک کے ذریعے ہی حاصل کرتی ہے، اگر کوئی کمپنی بینک کے ذریعے سرمایہ حاصل نہ بھی کرے، تو عام طور پر لیز پر کوئی مشین یا کار وغیرہ لے لیتی ہے،اس کے علاوہ انشورنس بھی ہر کمپنی کرواتی ہے۔
اس تمہید کے بعد سوالات پیشِ خدمت ہیں:
(1) شیئرز کا کاروبار کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
(2) اگر سودی معاملات کی وجہ سے جائز نہیں ہے، تو ایسی کمپنی کا سودا خریدنے اور ان میں کام کرنے کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟
(3) شیئرز کے کاروبار میں اب تک جو منافع کمایا ہے، اس کا کیا کیا جائے؟
(4) منافع جو خرید و فروخت سے حاصل کیا ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کا کاروبار درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1۔ جس کمپنی کے شیئرز خریدنا چاہتے ہیں، اس کا کاروبار حلال ہو، اگر کمپنی کا کاروبا غیر شرعی ہو تو اس کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں۔
2۔ اس کمپنی کا کاروبار واقعۃً شروع ہوچکا ہو اور اس کمپنی کی املاک وجود میں آچکی ہوں، مثلا ً: عمارت اور مشینری وغیرہ وجود میں آچکی ہوں اور نقد اثاثے صرف پلاننگ اور منصوبہ بندی تک محدود نہ ہوں۔
اگر کمپنی صرف منصوبہ بندی اور نقد اثاثوں تک محدود ہو اور کاروبار شروع نہ ہوا ہو تو شیئرز کو صرف ان کی اصل قیمت ( Face Value) پر خریدنا یا بیچنا جائز ہے، اس سے کم و بیش پر خریدنا اور بیچنا جائز نہیں۔
3۔ نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہو، یعنی اگر کمپنی کو نفع ہو تو شیئرز کے خریدار بھی نفع میں شریک ہوں گے اور اگر نقصان ہو تو اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان میں بھی شریک ہوں گے۔
4۔ نفع فیصد کے اعتبار سے طے ہو، یعنی نفع کی ماہانہ یا سالانہ کوئی خاص رقم یقینی طور پر مقرر نہ ہو، بلکہ فیصد کے حساب سے نفع مقرر کیا گیا ہو، جو نفع ملے گا، اس میں سے اتنے فیصد کمپنی کا ہوگا اور اتنے فیصد شیئر ہولڈر میں تقسیم کیاجائے گا۔
5۔ شیئرز خریدنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ضمنی طور پر بھی کسی ناجائز کام میں ملوث نہ ہو اور اس ضمنی کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تناسب اس کی مجموعی آمدنی میں معتد بہ مثلا ً: پانچ فیصد نہ ہو ( جیسا کہ اس کی پابندی آج کل کے اسلامی مالیاتی اداروں میں کروائی جارہی ہے ) بصورت دیگر شئیرز خریدنے والا اس نیت سے خریدے کہ وہ کمپنی کو ناجائز اور حرام معاملات کرنے سے ہر طرح منع کریگا، تحریری طور پر بھی اور خصوصاً کمپنی کے سالانہ اجلاس (AGM) میں بھی یہ آواز اٹھائے گا کہ کمپنی ناجائز اور حرام معاملہ نہ کرے اور کم از کم ہمارا سرمایہ کسی حرام اور ناجائز کاروبار میں نہ لگائے۔
6۔ شق نمبر5 کے پیش نظر جب کمپنی سے سالانہ نفع وصول ہو تو شیئرز رکھنے والا اس کمپنی کی بیلنس شیٹ میں دیکھے کہ کمپنی نے اس ناجائز ضمنی معاملہ سے کتنے فیصد سرمایہ ناجائز کاروبار میں لگا کر نفع حاصل کیا ہے، پھر آمدنی کا اتنے فیصد حصہ اپنے حاصل شدہ نفع سے صدقہ کردے۔
7۔ شیئرز ہولڈر اس بات کا بھی اہتمام کرے کہ جس کمپنی کے شیئرز خریدے، اس کے مجموعی سرمائے کے تناسب میں اس کمپنی کے سودی قرضوں کی مقدار بہت زیادہ ( مثلا تینتیس فیصد 33٪ سے زیادہ) نہ ہو۔
8۔ جو شیئرز خریدا جارہا ہو، اس کے پیچھے موجود خالص نقد اثاثوں (Net liquid assets) کی مقدار اس شیئر کی بازاری قیمت (Market value )سے کم ہو۔
9۔اگر شیئرز کو ان کی قیمت اسمیہ( Face Value) سے کم یا زیادہ پر خریدا یا فروخت کیا جارہا ہو، تو شیئرز جس کمپنی کے ہوں، اس کے پاس نقد اثاثوں (Current Assets ) کے ساتھ ساتھ ایک معتدبہ مقدار جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔ ( مثلاً: بیس فیصد یا اس سے زائد جامد اثاثے ہوں)۔
10۔ مروجہ غیر اسلامی بینکوں اور انشورنس کمپنیوں، اسی طرح شراب بنانے والی اور بنیادی طور پر سود کا کام کرنے والی کمپنیوں کے شیئرز خریدنا بھی جائز نہیں۔
11۔ شیئرز کی خریدفروخت کرنے میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ شیئرز خریدنے کے بعد شیئر ہولڈرز ان شیئرز پر قبضہ کرے، اس کے بعد ان کو فروخت کرے، شیئرز پر قبضہ کئے بغیر انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً درست نہیں، جس کی وضاحت درج ذیل ہے۔
شیئرز آگے فروخت کرنے میں قبضہ کے مسائل:
اسٹاک ایکسچینج میں ڈے ٹریڈنگ میں حاضر سودے کی جو صورت رائج ہے، وہ یہ ہے کہ حاضر سودے میں سودا ہوتے ہی اس کا اندراج فوراً ہی KAT میں ہوجاتا ہے، جو اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے سودوں کا کمپیوٹرائز ریکارڈ ہوتا ہے، لیکن آج کل ہر سودے کے دو کاروباری دنوں کے بعد خریدار کو طے شدہ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے اور بیچنے والے کو بیچے ہوئے، حصص کی ڈیلیوری دینی ہوتی ہے۔ ( جبکہ پہلے اس میں تین دن لگتے تھے ) جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں سی ڈی سی کے ذریعے خریدے گئے شیئرز خریدار کے نام منتقل کیے جاتے ہیں، اسٹاک ایکسچینج کی اصطلاح میں اس کو ڈیلیوری اور قبضہ کہا جاتا ہے۔
مذکورہ صورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ جب تک خریدے گئے شیئرز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں خریدار کے نام منتقل نہیں ہوجاتے، انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ شرعاً کسی بھی چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس پر قبضہ شرط ہے۔
اسٹاک ایکسچینج کے مروجہ طریق کار کے مطابق اگر چہ شیئرز خریدتے وقت KAT میں ان کا اندراج ہو جاتا ہے، اور شیئرز کا نفع ونقصان بالآخر خریدار کو ہی پہنچتا ہے، لیکن چونکہ شئیرز کی خرید و فروخت درحقیقت کمپنی کے حصہ مشاع کی خرید وفروخت ہے اور حصہ مشاع کی بیع میں محض نفع ونقصان کے خریدار کی طرف منتقل ہونے کو شرعی قبضہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور حصہ مشاع پر حسی قبضہ بھی ممکن نہیں، لہذا اس صورت میں قبضہ کے تحقق کے لیے تخلیہ کا پایا جانا ضروری ہے اور اسٹاک ایکسچینج کے موجودہ قواعد وضوابط کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سی ڈی سی کے ذریعے کمپنی کے ریکارڈ میں شئیرز خریدار کے نام منتقل ہونے سے پہلے تخلیہ نہیں پایا جاتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں بیچے گئے شئیرز خریدار کے نام منتقل ہونے سے پہلے انہیں آگے فروخت کرنا بیع قبل القبض ہے، جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ حاضر سودے کی صورت میں بھی خریدے گئے شئیرز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ یعنی ڈیلیوری سے پہلے آگے بیچنا جائز نہیں ہیں۔
12۔ فارورڈ سیل (Forward Trading) یا فیوچر سیل (Future Trading ) کی جتنی صورتیں اسٹاک ایکسچینج میں رائج ہیں، وہ اپنی موجودہ شکل میں شرعا ناجائز ہیں۔
13۔ اسٹاک ایکسچینج میں رائج بدلہ کے معاملات بھی بیع قبل القبض اور دوسری شرط فاسد ( یعنی زیادہ قیمت پر واپس خریدنے کی شرط پر بیچنے ) کی بناء پر جائز نہیں ہیں۔
14۔ اسٹاک ایکسچینج میں رائج شئیرز کی بلینک سیل ( Blank Sale ) اور شارٹ سیل ( Short Sale) بھی شرعا ممنوع اور ناجائز ہے۔
( ماخذہ تبویب از فتاوی دارالعلوم کراچی 803/47)
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1- شئیرز کا کاروبار مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ کرنا جائز ہے۔
2- اسٹاک ایکسچینج میں ملازمت کا اصولی جواب یہ ہے کہ اگر کام کے دوران براہ راست سودی معاملات یا دیگر غیر شرعی امور سر انجام انجام نہ دینے پڑتے ہوں٬ تو وہاں ملازمت کرنا فی نفسہ جائز ہے٬ اسی طرح IT ڈپارٹمنٹ میں بھی اگر ناجائز کاموں میں معاونت نہ ہوتی ہو٬ تو ایسی ملازمت اور کمائی ناجائز یا حرام نہیں کہلائے گی۔
نیز کسی کمپنی کے شئیرز کی خرید وفروخت کے لیے انہی شرائط کو ملحوظ رکھا جائے گا، جو اوپر بیان کی گئیں ہیں۔
البتہ جس کمپنی کا بزنس حلال ہے، اس کی بنی ہوئی اشیاء کی خرید وفروخت جائز ہے، تاہم کمپنی والوں کا اپنے کاروبار کے لیے سودی قرضہ لینا نا جائز اور گناہ ہے، لیکن اس کمپنی کی حلال مصنوعات کی خریداری کرنا حرام نہیں ہے۔
3- اس سوال کا جواب اوپر شق نمبر 5-6 میں بیان ہو چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
و قوله تعالیٰ: (المائدۃ، الایة: 90)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَo
صحیح مسلم: (باب إبطال بیع الملامسة و المنابذۃ)
"عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن بیع الحصاۃ، وعن بیع الغرر"
و فیه ایضا: (رقم الحدیث: 1525)
"ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یقبضہ۔ قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ: وأحسب کل شيء بمنزلۃ الطعام"
صحیح مسلم: (227/2)
عن جابر قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
عمدۃ القاری: (435/8)
"الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ".
مصنف ابن أبی شیبة: (کتاب البیوع و الاقضیة، 483/4، ط: مکتبة الرشد)
عن ابن سیرین قال: "کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".
رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحة، 403/6، ط: سعید)
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".
الھندیة: (319/2، ط: دار الفکر)
"أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات".
و فیها ایضاً: (320/2، ط: دار الفکر)
"كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه".
الھدایة: (59/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
فصل: "ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه" لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك.
الھندیة: (الباب العشرون في المبیعات المکروھة، 211/3)
"ومن استقرض من آخر ألفًا علي أن یعطي المقرض کل شہر عشرۃ دراہم، وقبض الألف وربح فیہا طاب لہ الربح".
جواہر الفقه: (تفصیل الکلام في مسئلۃ الإعانۃ علی الحرام)
"الإعانۃ علی المعصیۃ حرام قطعًا بنص القرآن، ولکن الإعانۃ حقیقۃ ہي ما قامت المعصیۃ بعین فعل المعین الخ"
الھندیة: (کتاب الإجارۃ، 450/4، ط: زکریا)
"وفي نوادر ہشام عن محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: رجل استأجر رجلاً لیصور لہ صوراً أو تماثیل الرجال في بیت، أو فسطاطٍ فإني أکرہ ذٰلک وأجعل لہ الأجرۃ"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی