عنوان: کسی کو اسائنمنٹ(assignment)/مضمون/ مقالہ لکھ کر دینے کی اجرت لینے کا حکم(5959-No)

سوال: مفتی صاحب! میں ایک فری لانس لکھاری ہوں، یہ ایسی جاب ہے، جس میں میں آن لائن لوگوں کے لیے کام کرتی ہوں، جیسے کہ کالم لکھنا وغیرہ۔
اکثر یونیورسٹیوں کے طلباء بھی مجھے اپنا کام اسائنمنٹ وغیرہ کرنے کو دیتے ہیں اور اس کے مجھے پیسے ملتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ طلباء یہ کام آگے اپنے اساتذہ کو یہ کہہ کر بتائیں کہ یہ انہوں نے کیا ہے، تو کیا اسکا گناہ مجھے بھی ہوگا اور میری کمائی خراب ہو گی یا اگر ان کو اس کام کے نمبر ملیں تو کیا صورت ہوگی؟
نوٹ: میں جو بھی کام لکھتی ہوں، اس میں کچھ بھی غیر شرعی نہیں ہوتا، اور اسائنمنٹ وہ کام ہے، جس میں کسی کی مدد لینے کی اجازت ہوتی ہے، یہ امتحان سے مختلف ہے۔
یہ صورت بھی بتائیں کہ اگر مجھے واضح طور پہ نہ پتا ہو کہ یہ کام کہاں اِستعمال ہوگا تو کیا صورت ہو گی؟

جواب: کسی دوسرے سے مقالہ/اسائنمنٹ (assignment) لکھوا کر اپنی طرف منسوب کرکے اپنے نام سے جمع کرانا٬ قانون کی خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ شرعا جھوٹ اور دھوکہ دہی بھی ہے٬ جو جائز نہیں٬ اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
جہاں تک لکھ کر دینے کا تعلق ہے تو اگر آپ کو اس بات کا علم ہوکہ آپ کو لکھنے کیلئے دیئے جانے والے مضامین طلبہ یا ان حضرات کے ہیں٬ جن پر ان مضامین کو خود تحریر کرنا لازم تھا٬ مگر وہ لوگ آپ کے ذریعے مضامین لکھوا کر اپنی طرف منسوب کرکے پیش کریں گے٬ تو ایسے لوگوں کا کام کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے٬ نیز ایسی صورت میں اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی کراہت سے خالی نہ ہوگی٬ کیونکہ جائز مضمون پر مشتمل تحریر/مقالہ لکھنا اگرچہ گناہ نہیں٬ بلکہ مباح عمل ہے٬ جس کی اجرت حلال ہے٬ لیکن یہاں دھوکہ دہی کے کام میں جان بوجھ کر معاونت کی وجہ سے اس میں کراہت آجائے گی۔
لیکن اگر آپ کو اس بات علم نہ ہو کہ مضمون لکھوانے والا کس مقصد کیلئے لکھوا رہا ہے تو آپ کیلئے جائز مضامین پر مشتمل تحریر/مقالہ لکھنا جائز ہے اور اس کی اجرت بھی حلال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 2)
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo

صحيح البخاري: (69/3، ط: دار طوق النجاۃ)
"قال النبي صلى الله عليه وسلم: «الخديعة في النار، من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد»

الدر المختار: (268/4، ط: دار الفکر)
"(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب زيلعي"

کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 58/1604

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3503 Dec 03, 2020
kisi ko assignment likh kar dene ki ujrat lene ka hukum, What is the Shariah ruling / order to take wages for writing an assignment/essay/dissertation to someone.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.