سوال:
ہم نے کینیڈا میں ایک اپارٹمنٹ بک کروایا ہے، اس کی قیمت 5 لاکھ 80 ہزار ڈالر ہے، ہم نے بینک سے سود پر قرضہ لے کر گھر بک کروالیا ہے، اور اپنے ذاتی سیونگ پیسوں 60 ہزار دے کر اس اپارٹمنٹ کو اپنے نام کروالیا ہے، دو سال تک وہ اپارٹمنٹ بنے گا، دو سال بعد اس میں کرایہ دار آئینگے، تو اس کا کرایہ سود میں چلے جائے گا، ہمارے ہاتھ میں اس کا نفع و نقصان نہیں آئے گا اور سود کے پیسوں سے جو بچت ہوگی، وہ پراپرٹی ٹیکس میں چلے جائے گی۔
ہمارا ارادہ یہ ہے کہ پانچ یا چھ سال بعد اس کو فروخت کردینگے، جس گھر میں ہم ابھی رہ رہے ہیں، اس بھی قرضہ اتارنا ہے، اس کا یہی طریقہ ہے کہ ہم پانچ چھ سال بعد وہ اپارٹمنٹ فروخت کر کے قرضہ ادا کردیں۔
اب آپ بتائیں کہ ہمارا یہ طریقہ صحیح ہے یا نہیں؟ کیا یہ مکمل سودی معاملہ ہے؟ اگر صحیح نہیں ہے، تو ہم اسے جلدی فروخت کردینگے۔ براہ کرم ہماری رہنمائی فرمادیں۔
جواب: قرآن و حدیث کی واضح اور قطعی نصوص کی روشنی سود کا لین دین حرام ہے٬ جس سے بچنا ضروری ہے.
مذکورہ صورت میں بینک سے قرض لینا چونکہ سودی معاملہ ہے، اور قرض اتارنے کیلئے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے٬ لہذا اس معاملہ کو ختم کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
و قوله تعالی: (المائدۃ، الایة: 90)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَo
صحیح مسلم: (1219/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی