سوال:
اگر کسی شخص پر حج فرض ہوچکا ہو اور اس کے پاس حج پر جانے کا پورا انتظام ہو اور وہ نکاح کرنا بھی چاہتا ہو تو اس صورت میں اس کے لئے کیا حکم ہے، حج پہلے کرے یا نکاح پہلے کرے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر حج کا زمانہ چل رہا ہو اور لوگ حج کی تیاری میں مصروف ہوں، اور حج کے فارم بھرے جارہے ہوں، اور اس شخص کو زنا میں مبتلا ہوجانے کا خوف نہ ہو، تو ایسا شخص پہلے حج کرے، پھر نکاح کرے اور اگر ابھی حاجیوں کے جانے کا وقت نہیں آیا، تو نکاح کرسکتا ہے، اور اگر اپنے اوپر قابو نہ ہونے کی وجہ سے زنا میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو، تو ایسا شخص پہلے نکاح کرے، اور پھر حج کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (462/2، ط: دار الفکر)
(قوله وفي الأشباه) المسألة منقولة عن أبي حنيفة في تقديم الحج على التزوج، والتفصيل المذكور ذكره صاحب الهداية في التجنيس، وذكرها في الهداية مطلقة، واستشهد بها على أن الحج على الفور عنده ومقتضاه تقديم الحج على التزوج، وإن كان واجبا عند التوقان وهو صريح ما في العناية مع أنه حينئذ من الحوائج الأصلية ولذا اعترضه ابن كمال باشا في شرحه على الهداية بأنه حال التوقان مقدم على الحج اتفاقا لأن في تركه أمرين ترك الفرض والوقوع في الزنا وجواب أبي حنيفة في غير حال التوقان اه أي في غير حال تحققه الزنا لأنه لو تحققه فرض التزوج أما لو خافه فالتزوج واجب لا فرض فيقدم الحج الفرض عليه فافهم
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی