سوال:
مفتی صاحب ! سوال یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں کیا کافر یا پھر مشرک کو حکومتی اداروں میں ملازمت ملتی تھی یا نہیں؟ میری معلومات کے مطابق کسی بھی حکومتی اسامیوں پر صرف مسلمان ہی اہل ہوتا تھا، اس کی وضاحت بتا دیں۔ جزاکم الله خيرا
جواب: واضح رہے کہ حکومت کے ایسے معاملات جو صرف اقلیتوں (غیر مسلم ذمیوں) سے متعلق ہوں، ان معاملات میں صرف مشورہ وغیرہ کی حد تک کافروں (ذمیوں) سے ان کی رائے لی جاسکتی اور انہی معاملات میں کافروں کو اپنے جیسے کافروں ( ذمیوں) پر ذمہ دار بنایا جاسکتا ہے۔
لیکن کسی کافر کو ایسے سرکاری عہدے پر فائز کرنا، جس کی ماتحتی میں مسلمان آتے ہوں، ایسا کرنا ہر گز جائز نہیں ہے، قرآن کریم میں اس بارے میں صراحت کے ساتھ ارشاد ہے:
قال الله تعالى: ﴿ يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم﴾ (سورۃ آل عمران: 118)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے سوا کسی کو صاحب خصوصیات مت بناؤ، وہ لوگ تمہارے ساتھ فساد کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے، تمہاری مضرت کی تمنا رکھتے ہیں، واقعی بغض ان کے منہ سے ظاہر ہو پڑتا ہے اور جس قدر ان کے دلوں میں ہے، وہ تو بہت کچھ ہے ہم علامات تمہارے سامنے ظاہر کر چکے اگر تم عقل رکھتے ہو۔
(بیان القرآن)
حضرات خلفاء راشدین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے زمانے کے بارے میں ہماری معلومات کے مطابق ایسی مثال نہیں ملتی ہے، جس میں کسی کافر کو سرکاری عہدے پر فائز کیا گیا ہو، بلکہ احکام القرآن للجصاص میں مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں یہ واقعہ لکھا ہے: حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے متعلق مروی ہے کہ جب آپ کو پتا چلا کہ آپ کے مقرر کردہ گورنر حضرت ابوموسی اشعری (رضی اللہ عنہ) نے کسی ذمی (کافر) کو اپنا کاتب (منشی) بنالیا ہے، تو آپ نے فوراً انھیں تحریری خط لکھ کر، ان کی سرزنش کی اور فورا اس کافر کو معزول کرنے کا حکم دیا اور دلیل کے طور پر اس آیت ﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ﴾ کا حوالہ دیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جب انہیں ذلیل کردیا ہے، تو تم اب انہیں عزت کا مقام نہ دو ۔
اسی طرح تفسیر ابن کثیر میں ہے: "قیل لعمر بن الخطاب رضي الله عنه: إن ههنا غلاماً من أهل الحیرة حفِظ کاتب، فلوا اتخذته کاتباً! فقال: قد اتخذت إذاً بطانةً من دون المؤمنین".
(تفسیر ابن کثیر٣/ ١٦٥)
ترجمہ:
حضرت فاروق اعظم سے کہا گیا کہ یہاں حیرہ کا رہنے والا ایک منشی ہے، جو کہ اس فن (حساب وکتاب) کو خوب اچھی طرح جانتا ہے، آپ اس کو اپنے ہاں منشی رکھ لیں۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا: اس (غیر مسلم) کو منشی رکھنے سے قرآن کی (مندرجہ بالا) آیت کی مخالفت لازم آئے گی۔ اور اس وقت گویا میں مسلمانوں کو چھوڑ کر غیر مسلم کو اپنا راز دان بناؤں گا۔
احکام القرآن للجصاص میں ہے: ابوحیان تیمی نے فرقدبن صالح سے، انہوں نے ابو دہقانہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سے گزارش کی کہ ایک شخص "حیرہ" کا رہنے والا ہے (ہم نے اس جیسی یادداشت کا مالک اور اس جیسا خوش نویس کسی کو نہیں پایا) میراخیال ہے کہ آپ اسے اپنا کاتب مقرر کرلیں۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے یہ سن کر جواب دیا: اگر میں ایسا کرلوں تو گویا میں مسلمانوں کو چھوڑ کر غیروں کو اپنا راز دار بنانے کے جرم کا ارتکاب کروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسير الألوسي: (253/2)
"والمعنى: لا تتخذوا الكافرين كاليهود والمنافقين أولياء وخواص من غير المؤمنين أو ممن لم تبلغ منزلته، منزلتكم في الشرف والديانة، والحكم عام وإن كان سبب النزول خاصاً فإن اتخاذ المخالف ولياً مظنة الفتنة والفساد؛ولهذا ورد تفسير هذه البطانة بالخوارج.
وأخرج البيهقي، وغيره عن أنس عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنه قال: «لا تنقشوا في خواتيكم عربياً، ولا تستضيئوا بنار المشركين».
فذكر ذلك للحسن فقال: نعم لا تنقشوا في خواتيمكم محمد رسول الله، ولا تستسروا المشركين في شيء من أموركم، ثم قال الحسن: وتصديق ذلك من كتاب الله تعالى: ﴿يا أيها الذين اٰمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم لا يألونكم خبالاً﴾".
أحكام القرآن للجصاص: (باب الاستعانة بأهل الذمة، 324/2)
قال الله تعالى: ﴿ يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم﴾ وروى أبو حيان التيمي عن فرقد بن صالح عن أبي دهقانة قال: قلت لعمر بن الخطاب: إن هاهنا رجلاً من أهل الحيرة لم نر رجلاً أحفظ منه ولا أخط منه بقلم، فإن رأيت أن نتخذه كاتباً! قال: قد اتخذت إذاً بطانة من دون المؤمنين. وروى هلال الطائي عن وسق الرومي قال: كنت مملوكاً لعمر فكان يقول لي: أسلم؛ فإنك إن أسلمت استعنت بك على أمانة المسلمين؛ فإنه لا ينبغي أن أستعين على أمانتهم من ليس منهم، فأبيت فقال: ﴿لا إكراه في الدين﴾! فلما حضرته الوفاة أعتقني، فقال: اذهب حيث شئت".
المبسوط للسرخسي: (93/16)
"ولا ينبغي للقاضي أن يتخذ كاتباً من أهل الذمة، بلغنا أن أبا موسى الأشعري قدم على عمر - رضي الله عنهما -، فسأله عن كاتبه، فقال: هو رجل من أهل الذمة، فغضب عمر - رضي الله عنه - من ذلك، وقال: لا تستعينوا بهم في شيء، وأبعدوهم وأذلوهم، فاتخذ أبو موسى كاتباً غيره ؛ ولأن مايقوم به كاتب القاضي من أمر الدين، وهم يخونون المسلمين في أمور الدين؛ ليفسدوه عليهم ،(قال) الله تعالى: ﴿لا تتخذوا بطانة﴾. [آل عمران: 118] الآية، وإن عمر - رضي الله عنه - أعتق عبداً له نصرانياً يدعى بحنس. وقال: لو كنت على ديننا لاستعنا بك في شيء من أمورنا . ولأن كاتب القاضي يعظم في الناس، وقد نهينا عن تعظيمهم قال صلى الله عليه وسلم : «أذلوهم ولا تظلموهم، ولا تتخذوا كاتباً مملوكاً ولا محدوداً في قذف، ولا أحداً ممن لا تجوز شهادته»؛ لأن الكاتب ينوب عن القاضي فيما هو من أهم أعماله، فلا يختار لذلك إلا من يصلح للقضاء، وربما يحتاج القاضي إلى الاعتماد على شهادته في بعض الأمور، أو يحتاج بعض الخصوم إلى شهادته، فلا يختار إلا من يصلح للشهادة".
الدر المختار مع رد المحتار: (309/2)
"(هو حر مسلم) بهذا يعلم حرمة تولية اليهود على الأعمال .
(قوله: هو حر مسلم) فلا يصح أن يكون عبداً ؛ لعدم الولاية. ولا يصح أن يكون كافراً ؛ لأنه لا يلي على المسلم بالآية، بحر عن الغاية. والمراد بالآية قوله تعالى : ﴿ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا﴾ [النساء: 141] (قوله: بهذا إلخ) أي باشتراط الإسلام للآية المذكورة، زاد في البحر: ولاشك في حرمة ذلك أيضاً اه: أي لأن في ذلك تعظيمه، وقد نصوا على حرمة تعظيمه، بل قال في الشرنبلالية: وما ورد من ذمه أي العاشر فمحمول على من يظلم كزماننا، وعلم مما ذكرناه حرمة تولية الفسقة فضلاً عن اليهود والكفرة. اه.
قلت: وذكر في شرح السير الكبير: أن عمر كتب إلى سعد بن أبي وقاص: "ولا تتخذ أحداً من المشركين كاتباً على المسلمين ؛ فإنهم يأخذون الرشوة في دينهم، ولا رشوة في دين الله تعالى". قال: وبه نأخذ؛ فإن الوالي ممنوع من أن يتخذ كاتباً من غير المسلمين : ﴿لا تتخذوا بطانة من دونكم﴾ [آل عمران: 118] ". اه
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر: (290/1)
"(هو من نصب) أي نصبه الإمام (على الطريق)، احتراز عن الساعي، وهو الذي يسعى في القبائل؛ ليأخذ صدقة المواشي في أماكنها، فلا يصح أن يكون عبداً ولا كافراً؛ لعدم الولاية فيهما، ولا هاشمياً؛ لما فيه من شبهة الزكاة، وبه يعلم حكم تولية الكافر في زماننا على بعض الأعمال، ولا شك في حرمة ذلك".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی