سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب!
میں نے ایک شخص سے دو ماہ پہلے ایک مکان خریدا ہے، جو ابھی کرایہ پر دے رکھا ہے، جس آدمی سے خریدا ہے، اس نے آج سے بیس سال پہلےکسی سے زمین خرید کر خود اس پر مکان بنایا تھا، اور زمین بیچنے والے نے در اصل ناحق قبضہ کرکے یہ زمین فروخت کی تھی، مجھے مکان خریدتے وقت یہ بات معلوم نہیں تھی کہ یہ قبضے کی ( بغیر لیز والی ) زمین پر بنا ہوا ہے، اب جاکر معلوم ہوا ہے، تو ایسی صورت میں میرے لیے اس گھر کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: آپ کا سوال اس حوالے سے کہ مجھے اس زمین کے لیز ہونے، نہ ہونے کا پتہ نہیں تھا، ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، نیز آپ نے یہ بھی واضح نہیں کیا ہے کہ آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟ آیا رہائش کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ یا فسخ عقد کے متعلق؟
اگر آپ کا سوال رہائش کے بارے میں ہے، تو جب تک سرکار کی طرف سے مکان کو خالی کرنے کا حکم نہیں آتا، اس وقت تک آپ کے لئے اس میں رہائش رکھنے کی گنجائش ہے، اور اگر آپ کا سوال فسخ عقد سے متعلق ہے، تو آپ اس اس سودے کو یکطرفہ ختم نہیں کر سکتے، کیوں کہ زمین گوکہ بائع کی ملکیت نہیں تھی، لیکن عمارت تو اسی کی تھی، اب اسے واپس کرنے کا مطلب اقالہ (فسخ عقد) کرنا ہے، جو یکطرفہ نہیں ہو سکتا، بلکہ فریقین کی باہمی رضامندی سے ہی درست ہوتا ہے۔
ہاں اگر اس نے آپ کو دھوکہ دیا ہو، جعلی کاغذات دکھا کر یا کسی اور طرح کی جعلسازی کر کے آپ کے استفسار پر غلط بیانی کی ہو، تب آپ کو واپس کرنے کا پورا حق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایہ: (379/3، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و من غصب ارضا فغرس فیھا او بنی، قیل لہ: اقلع البناء و الغرس، و ردھا، فان کانت الارض تنقص بقلع ذالک فللمالک ان یضمن کہ قیمہ البناء و الغرس مقلوعا ویکونان لہ۔
و فیھا ایضاً: (42/3، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و اذا الطلع المشتری علی عیب فی المبیع، فھو بالخیار، ان شاء اخذہ بجمیع الثمن و ان شاء ردہ، و لیس کہ ان یمسکہ و یاخذ النقصان، و کل ما اوجب نقصان الثمن فی عادہ التجار، فھو عیب۔
و فیھا ایضاً: (72/3، ط: مکتبہ رحمانیہ)
الاقلہ جائزہ فی البیع بمثل الثمن الاول، لقولہ علیہ السلام: من سوال نادما بیعتہ، اقال اللہ عثراتہ یوم القیامہ، و لان العقد حقہما، فیملکان رفعہ، دفعا لحاجتہما۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی