سوال:
کیا درود تاج احادیث سے ثابت ہے، نیز اس کا پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: "درود تاج" جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین تبع تابعین اور ائمہ کرام میں سے کسی سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ اس کی تمام فضیلتیں اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہیں۔
"درود تاج" کے بعض الفاظ شرکیہ ہیں۔
فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:’’اس درود شریف کے جو کچھ فضائل بعض جاہل لوگ بیان کرتے ہیں بالکل غلط ہیں۔۔۔۔
پس کس طرح درود کے اس صیغے کو باعث ثواب قرار دے سکتے ہیں اور صحیح حدیث میں جو درود کے صیغے آئے ہیں ان کو چھوڑنا اور اس میں بہت کچھ ثواب کی امید رکھنا اور اس کا ورد کرنا گمراہی و بدعت ہے اور چونکہ اس میں کلماتِ شرکیہ بھی ہیں، عوام کے عقیدے کی خرابی کا اندیشہ ہے، لہٰذا اس کا پڑھنا ممنوع ہے، پس درود تاج کی تعلیم دینا ایسا ہی ہے کہ عوام کو زہر قاتل دے دیا جائے، کیونکہ بہت سے آدمی عقیدۂ شرکیہ کے فساد میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔‘‘(فتاویٰ رشیدیہ، ص: 457)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:’’ابتداء معلوم نہیں کس نے ایجاد کیا، جو فضائل عوام بیان کرتے ہیں، وہ محض لغو اور غلط ہیں، احادیث میں جو درود وارد ہیں، وہ یقینا "درود تاج" سے افضل ہیں، نیز اس میں بعض الفاظ شرکیہ ہیں، اس لئے اس کو ترک کرنا چاہئے۔ فتاویٰ رشیدیہ میں اس کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح ہے۔‘(فتاویٰ محمودیہ،ج:۱،ص:۲۲۲، ط: جامعہ فاروقیہ کراچی )
ایک اور سوال کے جواب میں فتاوی محمودیہ میں لکھا کہ ان کی کوئی سند صحیح ثابت نہیں ، جو تعریفیں لکھی ہیں، بے اصل ہیں، بجائے ان کے قرآن پاک کی تلاوت کی جائے، درودشریف، کلمہ شریف، استغفارپڑھا جائے ۔(فتاویٰ محمودیہ،ج:۱،ص:۲۲٣، ط: جامعہ فاروقیہ کراچی )
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:’’درود تاج کے الفاظ قرآن پاک اور حدیث شریف کے نہیں ہیں اور صحابہ کرام تابعین اور سلف صالحین سے درود تاج پڑھنا ثابت نہیں ہے، درود تاج سینکڑوں برس بعد کی ایجاد ہے، جس درود کے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کرام کو سکھلائے ہیں، (جیسے درود ابراہیم وغیرہ) کوئی دوسرا درود جو ایجاد ہو، اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صادر شدہ الفاظ اور کسی امت کے ایجاد کردہ الفاظ کی برکت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایجاد کردہ اور تعلیم دیئے ہوئے الفاظ میں جو برکت اور کشش ہے وہ دیگر کلمات میں نہیں ہے۔ اور اگر وہ دوسرے الفاظ خلاف سنت بھی ہوں تو پھر کوئی نسبت ہی باقی نہیں رہتی۔ پھر تو وہ فرق ہو جاتا ہے، جو روشنی اور اندھیرے میں ہے۔‘‘
فتویٰ کا خلاصہ یہ ہے کہ درود تاج کے فضائل جو جہلاء میں مشہور ہیں، وہ بے اصل و بے بنیاد ہیں، حدیث شریف سے ثابت نہیں ہیں۔ فضائل و مقدار ثواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے بغیر جاننا محال ہے۔ خود درود تاج سینکڑوں برس بعد کی ایجاد ہے تو اس کے پڑھنے کی فضیلت اور مقدار ثواب کس نے اور کب بتائے؟ جس درود کے الفاظ حدیث شریف سے ثابت ہیں، انہیں چھوڑ کر غیر مسنون الفاظ پر بڑے بڑے ثواب کےوعدوں کا عقیدہ رکھ کر اس کا وظیفہ لازم کر لینا یہ بدعت ہے۔ نیز اس میں دافع البلاء وغیرہ الفاظ کی نسبت کا فرق عوام نہیں جانتے، لہٰذا اسے پڑھنے کا حکم دینا شرک میں مبتلا کرنے کے برابر ہے۔ درود تاج کا پڑھنا فرض واجب یا مسنون نہیں ہے تو پھر مسنون درود کو چھوڑ کر اس کو لئے بیٹھنا اور اس کو ایمان و کفر کی نشانی بنا لینا کہاں کا انصاف ہے؟
(فتاویٰ رحیمیہ، ج:٢، ص:٨٥، ط: دارالاشاعت )
اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ درود تاج کا پڑھنا صحیح نہیں ہے، بلکہ احادیث میں جو درود وارد ہوئے ہیں، ان کا پڑھنا زیادہ بہتر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتاوى نور على الدرب للشيخ ابن عثيمين: (147/1، ط: مؤسسة الشيخ محمد بن صالح بن عثيمين الخيرية)
الصيغة الصحيحة للصلاة على النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم ما علمه أمته حيث قالوا يا رسول الله علمنا كيف نسلم عليك فكيف نصلى عليك قال (قولوا اللهم صلّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ كما صلىت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميدٌ مجيد اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميدٌ مجيد) هذه الصيغة الواردة ووردت صيغ أخرى فمن صلى عليه بها فهو على خير لأن هذا مما تنوعت فيه السنة وأما ما يوجد في بعض الكتب من صلوات مبنية على أسجاع وعلى أوصاف وقد تكون أوصافاً لا تصح إلا على رب العالمين فاحذر منها فر منها فرارك من الأسد ولا يغرنك ما فيها من السجع الذي قد يبكي العين ويرقق القلب عليك بالأصيل والأصول ودع عنك هذا الذي ألف على غير هدىً وسلطان.
تكملة فتح الملهم: (226/5، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)
ولا شك أن اتباع الأدعية المأثورة أولى و أرجى للقبول.
فصل الخطاب في الزهد و الرقائق و الآداب لمحمد نصر الدين محمد عويضة: (708/8)
ليس للمسلم أن يفضل على الصيغة المأثورة في الدعاء والتسبيح والصلاة على النبي صيغا أخرى، مهما كانت في ظاهرها حسنة اللفظ، جيدة المعنى، لأن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - هو معلم الخير، والهادي إلى الصراط المستقيم، وهو أعرف بالأفضل والأكمل
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی