سوال:
مفتی صاحب ! ہماری زمین كے اُوپر کافی عرصہ سے قبضہ ہوا ہے، جس کی مالیات تقریباً 4 سے 5 کروڑ روپے ہے، تقریباً 20 سال سے کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے اور ابھی تک فیصلہ نہیں آیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ جس شخص نے زمین پر قبضہ کیا ہے، اس کی گندی تصویر بنا کر اس کو مجبور کیا جائے کہ وہ زمین ہمارے حوالے کردے اور اگر شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی، تو پھر زمین کس طرح واپس حاصل کی جائے؟
جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ کسی شخص کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا ظلم اور زیادتی ہے، اور ظلم حرام اور ناجائز کام ہے۔ حدیث مبارکہ میں کسی کی زمین کا ایک ٹکڑا بھی غصب کرنے پر سخت وعید آئی ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے :
حضرت سعید ابن زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی کی زمین ظلم وزیادتی سے چھین لے، تو (قیامت کے دن) سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری)
لہذا صورت مسئولہ میں ایسے شخص کو پہلے اچھے طریقے سے سمجھا دینا چاہئیے، اگر پھر بھی وہ ظلم اور زیادتی سے نہیں رکتا، تو اس کو روکنے کیلیے قانونی کاروائی بھی کرنا جائز ہے، نیز اسے دھمکانے کیلیے کوئی مناسب تدبیر اختیار کرنے کی اجازت ہے، لیکن اس کی ننگی تصویریں لینا، کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2452)
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني طلحة بن عبد الله، أن عبد الرحمن بن عمرو بن سهل، أخبره أن سعيد بن زيد رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من ظلم من الأرض شيئا طوقه من سبع أرضين»
و فیه ایضاً: (رقم الحدیث: 2444، ط : دار طوق النجاة)
حدثنا مسدد، حدثنا معتمر، عن حميد، عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انصر أخاك ظالما أو مظلوما» [ص:129]، قالوا: يا رسول الله، هذا ننصره مظلوما، فكيف ننصره ظالما؟ قال: «تأخذ فوق يديه»
مسند احمد: (رقم الحديث: 20695)
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي حُرَّةَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: كُنْتُ آخِذًا بِزِمَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، أَذُودُ عَنْهُ النَّاسَ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، هَلْ تَدْرُونَ فِي أَيِّ يَوْمٍ أَنْتُمْ؟ وفِي أَيِّ شَهْرٍ أَنْتُمْ (2) ؟ وَفِي أَيِّ بَلَدٍ أَنْتُمْ؟ " قَالُوا: فِي يَوْمٍ حَرَامٍ، وَشَهْرٍ حَرَامٍ، وَبَلَدٍ حَرَامٍ، قَالَ: " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَهُ "، ثُمَّ قَالَ: " اسْمَعُوا مِنِّي تَعِيشُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، إِنَّهُ لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ، وَمَالٍ وَمَأْثَرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمِي هَذِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ يُوضَعُ دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، أَلَاوَإِنَّ كُلَّ رِبًا كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَإِنَّ اللهَ قَضَى أَنَّ أَوَّلَ رِبًا يُوضَعُ، رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لَا تَظْلِمُونَ، وَلَا تُظْلَمُونَ،
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی