سوال:
مفتی صاحب ! میری زمین پر حمزہ نے قبضہ کر کے زید کو فروخت کردی، جبکہ زید کو معلوم ہے کہ زمین قبضہ کی ہے، جب میں نے زید سے کہا کہ میری زمین واپس کرو تو زید نے کہا کہ پیسوں کے بغیر نہیں دونگا۔ کیا میں زمین بغیر پیسے کے لے سکتا ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ کسی شخص کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا ظلم اور زیادتی ہے، اور ظلم حرام اور ناجائز کام ہے۔
حدیث مبارکہ میں کسی کی زمین کا ایک ٹکڑا بھی غصب کرنے پر سخت وعید آئی ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے :
حضرت سعید ابن زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی کی زمین ظلم وزیادتی سے چھین لے، تو (قیامت کے دن) سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح خریدنے والے کو جب یہ معلوم ہے کہ یہ زمین غصب شدہ ہے تو معلوم ہونے کے بعد اس کے لئے خریدنا بھی جائز نہیں ہے اور اگر اس نے غاصب سے زمین خرید لی ہے تو مالک اس سے واپس لے سکتا ہے اور خریدنے والا اپنی رقم غاصب سے لےگا ، لہذا صورت مسئولہ میں مالک اپنی زمین زید سے بغیر رقم کے واپس لے سکتا ہے اور زید کا مالک سے رقم مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ، وہ اپنی رقم غاصب (جس نے زید کے ہاتھ زمین فروخت کی ہے۔)سے لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2452، 130/3، ط: دار طوق النجاة)
أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني طلحة بن عبد الله أن عبد الرحمن بن عمرو بن سهل أخبره أن سعيد بن زيد رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من ظلم من الأرض شيئا طوقه من سبع أرضين
البحر الرائق : (44/5، ط: دار الكتاب الاسلامی)
إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي
بدائع الصنائع: (85/7، ط: دار الكتاب العربي)
ولو باع السارق المسروق من إنسان أو ملكت ( ( ( ملكه ) ) ) منه بوجه من الوجوه فإن كان قائما فلصاحبه أن يأخذه لأنه عين ملكه وللمأخوذ منه أن يرجع على السارق بالثمن الذي دفعه
رد المحتار: (198/6، ط: دار الفکر)
والمشتري إذا ضمن قيمته يرجع بالثمن على الغاصب البائع؛ لأن رد القيمة كرد العين
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (575/6، ط: دار الفكر)
وكذلك للمالك عند الحنفية تضمين الغاصب الأول أو المرتهن أو المستأجر أو المستعير أو المشتري من الغاصب الأول، أو الوديع الذي أودعه الغاصب الأول الشيء المغصوب، فهلك في يده، فإن ضمن الغاصب الأول استقر الضمان عليه، ولم يرجع بشيء على أحد. وإن ضمن المرتهن أو المستأجر أو الوديع أو المشتري، رجعوا على الغاصب بالضمان، لأنهم عملوا له والمشتري إذا ضمن القيمة يرجع بالثمن على الغاصب البائع؛ لأن البائع ضامن استحقاق المبيع، ورد القيمة كرد العين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی