سوال:
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جوانی کی عبادت سونا ہے اور بڑھاپے کی عبادت چاندی ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟ نیز بڑھاپے کی عبادت کے فضائل بیان فرمادیں۔
جواب: (۱)سوال میں ذکرکردہ جملہ ‘‘جوانی کی عبادت سونا ہے اور بڑھاپے کی عبادت چاندی ہے’’ باوجود کوشش کے حدیث کی کسی مستند و معتبر کتاب میں حدیث کی کسی بھی قسم (صحیح، حسن، ضعیف وغیرہ) وغیرہ کسی بھی شکل میں نہیں ملا،لہذا جب تک اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے، اس کی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
(۲)احادیث مبارکہ بحالت اسلام بڑھاپے کی فضیلت میں بہت زیادہ ہیں، جن میں سے چند درج ذيل ہیں۔
1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ جناب نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’سفید بال نہ اُکھاڑو کیونکہ وہ مسلم کا نور ہے،جو شخص اِسلام میں بوڑھا ہوا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی وجہ سے اُس کے لئے نیکی لکھے گا اور خطا مٹا دے گا اور درَجہ بلند کرے گا۔‘‘(صحيح ابن حبان،حديث نمبر:2985)(۱)
2۔ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اسلام میں بوڑھا ہوا ، یہ بُڑھاپا اُس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا۔(ترمذی،حدیث نمبر:1635)(۲)
3۔طلحہ بن عبیدفرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی کے نزدیک کوئی کسی عمر رسیدہ مومن سے افضل نہیں اس کی تکبیر تحمید اور تہلیل کی وجہ سے۔(سنن نسائی کبری،حدیث نمبر:10606)(۳)
4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے، جنون ،کوڑھ اور برص اورجب پچاس سال کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف(کمی) کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں باقی رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے اور اس گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرماتے ہیں۔(مسند احمد،حدیث نمبر:13279)(۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)صحيح ابن حبان:(7/253،رقم الحديث:2985،ط :مؤسسة الرسالة)عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تنتفوا الشيب فإنه نور يوم القيامة، ومن شاب شيبة في الإسلام كتب له بها حسنة، وحط عنه بها خطيئة، ورفع له بها درجة»
(۲)سنن الترمذي:(3/224،رقم الحديث:1635،ط:دارالغرب الإسلامي)
عن عمرو بن عبسة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من شاب شيبة في سبيل الله كانت له نورا يوم القيامة.
(۳)سنن النسائي الكبرى:(9/309،رقم الحديث:10606،ط:مؤسسة الرسالة)
عن عبد الله بن شداد، قال طلحة بن عبيد الله: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس أحد أفضل عند الله من مؤمن يعمر في الإسلام، يكثر تكبيره، وتسبيحه، وتهليله، وتحميده»
(۴)’’مسند أحمد:(9/445،رقم الحديث:5626،(21/12،رقم الحديث:13279،ط:مؤسسة الرسالة)
مسند أحمد:(21/12،رقم الحديث:13279،ط:مؤسسة الرسالة)
حدثني يوسف بن أبي ذرة الأنصاري، عن جعفر بن عمرو بن أمية الضمري، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما من معمر يعمر في الإسلام أربعين سنة، إلا صرف الله عنه ثلاثة أنواع من البلاء: الجنون، والجذام، والبرص، فإذا بلغ خمسين سنة، لين الله عليه الحساب، فإذا بلغ ستين، رزقه الله الإنابة إليه بما يحب، فإذا بلغ سبعين سنة، أحبه الله، وأحبه أهل السماء، فإذا بلغ الثمانين، قبل الله حسناته، وتجاوز عن سيئاته، فإذا بلغ تسعين، غفر الله له ما تقدم من ذنبه، وما تأخر، وسمي أسير الله في أرضه، وشفع لأهل بيته "
والحدیث أخرجه الإمام أحمد في ’’مسنده‘‘(9/445)(5626)،(21/12)(13279) و أبو يعلى الموصلي في ’’مسنده‘‘(6 / 351)(3678) ، (7 / 241)( 4246) ،(7 / 242)(4248) ، (7 / 243)(4249) والحارث في ’’مسنده‘‘(2/977)(1085) و الدينوري في ’’المجالسة‘‘(4/166)(1334) والبيهقي في ’’الزهد الكبير‘‘(243)(641) وأبونعيم الأصفهاني في ’’تاریخ أصفھان‘‘(1/406)
قال الدکتور أحمد محمدالشاکر في ’’هامش المسند‘‘(11/134)(13212):إسناده ضعيف، لأجل يوسف بن أبي بردة الأنصاري ولكن الحديث . مع ضعفه يؤخذ به فهو في الترغيب والترهيب، وقد تسامحوا فى قبول مثل هذا، ويشهد له حديث من شاب شيبة في الإسلام - أو في سبيل الله - كانت له نوراً يوم القيامة». رواه الترمذي ١٧٢/٤رقم١٦٣٥وقال: حسن صحيح،كما رواه النسائي مطولا في ٢٦/٦في الجهادثواب من رمى بسهم،وعبدالرزاق١٥٢و٩٥٤٤،والطبراني في الكبير٣١/١و ٣٠٤/١٨،وعليه فيرقى المتن إلى الحسن لغيره.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی