سوال:
مفتی صاحب! میرا ایک بھتیجا قریب البلوغ ہے، اور میں اپنے والد صاحب کی طرف سے اس سے حج بدل کروانا چاہتا ہوں، اور وہ حج بدل کرنے پر راضی بھی ہے، تو کیا میں اس سے حج بدل کرواسکتا ہوں؟
جواب: صورت مسئولہ میں آپ کا بھتیجا قریب البلوغ ہونے کے ساتھ ساتھ اگر سمجھدار اور عقلمند ہو، اور حج کے مسائل جانتا ہو، تو آپ اس سے حج بدل کرواسکتے ہیں، البتہ چونکہ بعض علماء نے قریب البلوغ سے حج بدل کروانے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ آپ کسی بالغ شخص کو منتخب کرکے اس کو حج بدل کے لئے روانہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (603/2، ط: دار الفکر)
(لكنه يشترط) لصحة النيابة (أهلية المأمور لصحة الأفعال) ثم فرع عليه بقوله (فجاز حج الصرورة) بمهملة: من لم يحج (والمرأة) ولو أمة (والعبد وغيره) كالمراهق وغيرهم أولى لعدم الخلاف
(قوله وغيرهم أولى لعدم الخلاف) أي خلاف الشافعي فإنه لا يجوز حجهم كما في الزيلعي ح. ولا يخفى أن التعليل يفيد أن الكراهة تنزيهية لأن مراعاة الخلاف مستحبة فافهم.
فتاوی رحیمیۃ: (117/8، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی