سوال:
مفتی صاحب! ہمارے مدرسہ کی ایک وقف شدہ کاشت کاری والی زمین تھی، جس کی آمدنی مدرسہ پر خرچ کی جاتی تھی، ابھی ایک سال پہلے ایک شخص نے کسی طرح سے وہ زمین اپنے نام کروالی ہے اور اس پر قبضہ کرلیا ہے، اور اس زمین کا مالک ہونے کا دعوی کرتا ہے، اور زمین واپس نہیں کرتا ہے، سوال یہ ہے کہ وقف شدہ زمین کا حکومتی قانون کا سہارا لے کر مالک بننا کیسا ہے، وضاحت فرمادیں؟
جواب: واضح رہے کہ جو زمین کسی مدرسہ وغیرہ کے لئے وقف کی جائے، اور وقف لازم ہوجائے، تو وہ زمین وقف ہی رہتی ہے اور قیامت تک اس کے وقف کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو مالک بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے بطور رہن رکھوانا، تحفہ میں دینا یا فروخت کرنا جائز ہے،
لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کا مدرسہ کی موقوفہ زمین کو اپنے نام کرواکر مالک بننے کا دعوی کرنا اور اس زمین پر قبضہ کرنا قطعاََ ناجائز اور حرام ہے، اور اس سے اس زمین کا وقف ختم نہیں ہوگا۔
پس مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ وہ مدرسہ کی زمین مدرسہ کو واپس کردے، ورنہ سخت گناہ گار ہوگا، اور اس زمین سے حرام فائدہ اٹھانے والا شمار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (351/4، ط: دار الفکر)
(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر
الھندیۃ: (350/2، ط: دار الفکر)
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی