سوال:
قرآن پاک کے مقدس اوراق کو کسی ایسے کارخانے میں بھیجنا، جہاں ان کو دینی مقاصد کے لیے دوبارہ کارآمد بنایا جاسکے، مثلا: ًجہاں ان كو مشینوں کے ذریعے نئے کاغذ کی شکل دے کر، ان پر دوبارہ قرآنِ پاک کو پرنٹ کرلیا جائے تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مقدس اوراق، مثلاً: قرآن کریم کے وہ نسخے جو بوسیدہ ہو جانے کی وجہ سے قابل تلاوت نہ رہیں، اسی طرح احادیث مبارکہ، اسماء مقدسہ پر مشتمل اوراق اور پرانی دینی کتب، رسائل اور اخبارات وغیرہ کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے، ان کی "Recycling" کر کے دوبارہ کار آمد بنانے کی شرعا اجازت ہے۔
البتہ اس عمل میں چند آداب کی رعایت کرنی چاہیے:
1- بہتر یہ ہے کہ مقدس اوراق کی "Recycling" کے اس عمل میں ایسی بہتر سے بہتر صورت اختیار کی جائے، جس میں ممکنہ حد تک ان مقدس اوراق کا ادب واحترام برقرار رہے۔
2- مقدس اوراق کو رستے میں نہ رکھا جائے، بلکہ احترام کے ساتھ علیحدہ کسی جگہ پر رکھا جائے۔
3- اس کام میں حصہ لینے والے افراد ان اوراق کو باوضو ہو کر ہاتھ لگائیں۔
4- مقدس اوراق کی "Recycling" کے ذریعے خارج ہونے والے سیال مادہ کسی صاف جگہ یا دریا وغیرہ میں بہانے کا اہتمام کیا جائے۔
5- بہتر ہے کہ "Recycling" کے اس عمل میں مقدس اوراق کے ساتھ، ایسی کتب ورسائل کو نہ ملایا جائے جو تصاویر یا غیر شرعی لٹریچر پر مشتمل ہوں۔
6- مقدس اوراق کی نقل وحمل میں بھی حد درجہ ادب واحترام کا لحاظ رکھا جائے، لہذا ان اوراق کو گرانے اور پھینکنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
اگر کوئی ادارہ مذکورہ بالا آداب کی رعایت کے ساتھ "Recycling" کا عمل کرتا ہے، تو مقدس اوراق اس ادارے کو دینا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (422/6، ط: دار الفکر)
"قال الحصكفي:الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء".
"وفي الذخيرة المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه أشار محمد وبه نأخذ ولا يكره دفنه وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل" ۔
الدر المختار مع رد المحتار: (178/1، ط: دار الفکر)
"قال الحصكفي: ولا ترمی براية القلم المستعمل لاحترامه كحشيش المسجد وكناسته لا يلقى في موضع يخل بالتعظيم ولا يجوز لف شيء في كاغد فيه فقه وفي كتب الطب يجوز ولو فيه اسم الله أو الرسول فيجوز محوه ليلف فيه شيء ومحو بعض الكتابة بالريق يجوز وقد ورد النهي في محو اسم الله بالبزاق""وقال ابن عابدين:قوله ( لاحترامه ) أي بسبب ما كتب به من أسماء الله تعالى ونحوها على أن الحروف في ذاتها لها احترام۔۔۔قوله ( فيجوز محوه ) المحو إذهاب الأثر كما في القاموس ۔۔۔قوله (ومحو بعض الكتابة ) ظاهره ولو قرآنا وقيد بالبعض لإخراج اسم الله تعالى".
الھندیۃ: (كتاب الكراهية،الباب الخامس في آداب المسجد، 322/5)
"وَلَوْ مَحَا لَوْحًا كُتِبَ فيه الْقُرْآنُ وَاسْتَعْمَلَهُ في أَمْرِ الدُّنْيَا يَجُوزُ وقد وَرَدَ النَّهْيُ عن مَحْوِ اسْمِ اللَّهِ تَعَالَى بِالْبُزَاقِ"۔
نصاب الاحتساب: (الباب الثاني: الاحتساب على من يستخف بالحروف و الكواغذ و نحوها، ص: 95)
"وفی وصایا الملتقط: کتب ورسائل یستغنی عنہا وفیہا اسم اللہ تعالیٰ یمحی عنہا، ثم یلقی فی الماء الکثیر الجاری أو يدفن في أرض طيبه أو يفعل ذلك قبل المحو ولا يحرق بالنار، كذا روي عن محمد بن مقاتل الرازي، فعلى هذا لو غسلها بالماء الكثير الجاري واتخذ منه قراطيس كان أفضل".
الفتاوی التاتارخانیۃ: (كتاب الكراهية، المادة، 28066، 69/18)
" و في مسائل الملتقط: ورسائل تستغنى عنهاوفيها اسم الله تعالى يمحى ثم يلقى في الماءالكثير واتخذ منه قراطيس كان أفضل".
کذا فی تبویب فتاویٰ دار العلوم کراتشی: شائع کردہ: البلاغ: جلد ٣٣، ذى الحجة١٤١٩ه / اپریل ١٩٩ء، شمارہ: ١٢)
کذا فی فتاویٰ جامعہ عثمانیہ بشاور، رقم الفتوی: 1442145
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی