سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا فاسٹ فوڈ کھانا جائز ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ اس میں جو گوشت استعمال ہوتا ہے، اس کا ہمیں پتا نہیں ہوتا کہ یہ حلال چیز کا گوشت ہے یا حرام ، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ حلال و جائز چیزوں سے تیار شدہ فاسٹ فوڈ (fast food) کھانا جائز ہے، اسی طرح مسلمانوں کے ملک میں جب تک اس بات کا یقین نہ ہو کہ ذبیحہ مسلمان کا نہیں ہے، اور جب تک اس بات کا یقین نہ ہو کہ مسلمان نے جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑی ہے، اس وقت تک مسلمان ملک کا ذبیحہ حلال ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 173)
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌo
و قولہ تعالی: (المائدہ، الآیۃ: 5)
وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ حِلٌّ لَکُمْ۔۔۔۔الخ
صحیح البخاری: (کتاب البیوع، رقم الحدیث: 2051)
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ، مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكْ أَنْ يُوَاقِعَهُ "۔
انعام الباری: (83/6)
جہاں شبہات ناشی عن دلیل ہوں،وہاں شبہات سے بچنا مستحب ہے یا واجب؟ اس کا اصول یہ ہے کہ اگر اشیاء میں اصل اباحت ہو اور حرمت کا شبہ پیدا ہوجائے اور وہ شبہ ناشی عن دلیل ہو، تو اس شبہ کے نتیجے میں اس مباح چیز کا ترک کرنا واجب نہیں ہوتا، بلکہ مستحب ہوتا ہے اور تقوی کا تقاضا ہوتا ہے۔ اور اگر اصل اشیاء میں حرمت ہو اور پھر شبہ پیدا ہوجائے اور شبہ ناشی عن دلیل ہو، تو اس صورت میں اس شبہ سے بچنا واجب ہے، محض مستحب نہیں۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی