سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب !
کرونا کے متعلق ہماری کمپنی میں نماز کے بعد مسجد میں ایک شخص ہیلتھ کے متعلق کچھ ٹپس دیتے ہیں، مسجد میں جہاں دنیا کی باتیں کرنا منع ہے، تو کیا ہیلتھ کی آ گاہی کے لیے معلومات فراہم کرنا صحیح ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مسجد محض ذکر وعبادت کی جگہ ہے، چنانچہ وبائی مجبوری کی وجہ سے ایک آدھ مرتبہ ضروری طبی ھدایات دینے کی گنجائش ہے، لیکن اس کا معمول بنا لینا درست نہیں ہے۔
چنانچہ مشکاۃ شریف میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد کے باہر کنارے پر ایک چبوترہ تعمیر کروا دیا تھا اور اعلان کروایا تھا کہ جس کو اشعار پڑھنے ہوں، یا بلند آواز سے بولنا ہو، یا کوئی اور کام کرنا ہو، تو وہ چبوترہ پر چلا جائے، لہذا اگر خالص دینی مجلس کے علاوہ کسی اور مجلس کا باقاعدگی سے انعقاد کرنا ہو، تو مسجد سے باہر کسی اور جگہ منعقد کرنی چاہیے، عام طور پر مساجد سے متصل کمرے وغیرہ کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، یا مسجد کے باہر نوٹس بورڈ پر ان ھدایات کو آویزاں کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکاۃ المصابیح: (232/1، ط: المکتب الاسلامی)
"وعن مالك قال: بنى عمر رحبة في ناحية المسجد تسمى البطيحاء وقال من كان يريد أن يلغط أو ينشد شعرا أو يرفع صوته فليخرج إلى هذه الرحبة. رواه في الموطأ".
الھندیۃ: (321/5، ط: دار الفکر)
"الجلوس في المسجد للحديث لا يباح بالاتفاق؛ لأن المسجد ما بني لأمور الدنيا".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی