سوال:
عبد الله نے ایک زمین مسجد کے نام پر وقف کی، اور اس کی نشاندہی بهی کر دی، اس کے بعد اس کے بیٹوں نے وہاں موجود نشانات کو اکهاڑ پھینک دیا، واضح رہے کہ عبد الله عاقل ، دماغ کےاعتبار سے صحیح شخص ہے، اور اس کے پاس اس زمین کے علاوه بہت سی جائیداد ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ (١) عبد الله کا وقف صحیح ہوا یا نہیں؟ (٢) اگر صحیح ہوا ہے، تو پھر اس کے بدلے میں دوسری جگہ مسجد کے لیے زمین دے سکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین مسجد کے لیے وقف کردے، تو وہ زمین اس واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اور قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے، اس کے بعد نہ اس کی خرید وفروخت کی جاسکتی ہے، نہ ہبہ (Gift) کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی اس میں میراث جاری ہوتی ہے، کسی کو اس کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، لہذا صورت مسئولہ میں مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الوقف، مطلب لایستبدل العامر إلا في أربع، 358/4)
"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجداً عند الإمام والثاني ) أبداً إلى قيام الساعة، ( وبه يفتي ) حاوي القدسي.
لایجوز استبدال العامر إلا فی أربع:
والثالثة أن یجحده الغاصب ولا بینة أي و أراد دفع القیمة فللمتولي أخذها لیشتري بها بدلاً."
البحر الرائق: (کتاب الوقف، فصل فی احکام المساجد، 251/5، ط: رشیدیہ)
قال محمد اذا خرب ولیس لہ مایعمر بہ وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد اٰخر او لخراب القریۃ (الی قولہ) وقال ابو یوسف ہو مسجد ابدا الی قیام الساعۃ لا یعود میراثاً ولایجوز نقلہ ونقل مالہ الی مسجد اٰخر سواء کانوا یصلون فیہ اولا وہو الفتویٰ
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (225/37)
جمہور الفقہاء علی أن المسجد لا یباع وفي ھذا یقول الحنفیۃ: من اتخذ أرضہ مسجدا أو استوفی شروط صحۃ وقفہ لم یکن لہ أن یرجع فیہ ولا یبیعہ ولا یورث عنہ لانہ تجرد عن حق العباد وصار خالصا للہ تعالیٰ وإذا أسقط العبد ما ثبت لہ من الحق رجع إلی أصلہ فانقطع تصرفہ عنہ کما فی الإعتاق ولو خرب ما حول المسجد واستغنی عنہ یبقی مسجد عند أبی یوسف لانہ إسقاط منہ، فلا یعود إلی ملکہ وعند محمد یعود إلی ملک البانی (الواقف) إن کان حیا أو إلی وارثہ بعد موتہ وإن لم یعرف بانیہ ولا ورثتہ کان لھم بیعہ، وفي القرطبي لا یجوز نقض المسجد ولا بیعہ ولا تعطیلہ وإن خربت المحلۃ۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (الفصل الثالث حکم الوقف، 7617/10)
" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته".
بدائع الصنائع: (کتاب الوقف، 328/5)
"الوقف إخراج المال عن الملک علی وجه الصدقة، فلایصح بدون التسلیم کسائر التصرفات".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی