سوال:
مفتی صاحب ! کیا چہرے کے بال صاف کروانے کی شریعت میں اجازت ہے؟
جواب: 1- خواتین کے لیے محض زینت کی خاطر اپنے چہرے کی فطری بناوٹ کو بدلنا جائز نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال نوچنے اور نچوانے والیوں پر لعنت فرمائی ہے، البتہ اگر عورت کے چہرے پر خلاف معمول بال اگ آئیں، مثلاً: داڑھی مونچھ وغیرہ نکل آئے، یا پیشانی پر بال نکل آئیں کہ شوہر کو اس سے نفرت ہوتی ہو، تو ان بالوں کو صاف کرنے کی فقہاء کرام نے اجازت دی ہے، لیکن بھنووں کے بال نوچ کر باریک کرنا جیسا کہ آج کل اس کا عام فیشن ہے، اس کی شرعا اجازت نہیں ہے، تاہم بھنووں کے بال بہت بڑھ جائیں، تو انہیں کتر کر عام حالت کے مطابق بنانے کی گنجائش ہے۔
نیز ان بالوں کو نوچ کر نکالنے کے بجائے کسی پاؤڈر وغیرہ یا ایسے طریقے سے صاف کرنا چاہیے، جس سے تکلیف نہ ہو۔
2- مردوں کے لیے داڑھی کے تین اطراف سے ایک مشت سے زائد بال کاٹنے کی اجازت ہے، اور داڑھی کے علاوہ مثلا: گالوں پر اگنے والے بالوں کو کاٹنے کی اجازت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح الباری: (630/8)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ؛ قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ؛ وَكَانَتْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؛ فَأَتَتْهُ فَقَالَتْ: مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ؛ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ؛ فَقَالَتْ الْمَرْأَةُ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ لَوْحَيْ الْمُصْحَفِ فَمَا وَجَدْتُهُ؛ فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿ وَمَا آتَاكُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ﴾۔۔۔۔۔۔۔الخ".
رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحة، 373/6)
والا فلو کان فی وجھھا شعر ینفر زوجھا عنھا بسببہ ففی تحریم ازالتہ بعد لان الزینة للنساء مطلوبة للتحسین۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی