سوال:
مفتی صاحب! رات کی نماز شروع کرتے وقت کن الفاظ میں دعا کرنی چاہیے؟
جواب: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کی نماز ان الفاظ سے شروع فرماتے تھے:
(1) اَللّٰهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ أَنْتَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ.
ترجمہ: اے اللہ! اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے، پوشیدہ اورظاہرکا علم رکھنے والے، جن باتوں میں (یہ تیرے بندے) اختلاف کررہے ہیں، تو ہی ان کا فیصلہ کرتا ہے، اور حق کے بارے میں جو اختلاف (دنیا میں) ہورہا ہے، اُس میں اپنے فضل سے میری رہنمائی فرما، بے شک تو ہی جس کو چاہتا ہے، سیدھے راستہ پر چلاتا ہے۔
(السنن لابي داؤد، باب ما يستفتح به الصلاة من الدعاء، رقم الحديث: 767)
نیز یہ دعا پڑھنا بھی ثابت ہے:
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نماز شروع فرماتے، تو
دس بار اَللهُ اَكبَر ( اللہ سب سے بڑا ہے) کہتے، دس بار اَلحَمدُ لِلّٰهِ ( تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) کہتے، دس بار سُبْحَانَ اللَّهِ ( میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں) کہتے، اور دس بار اَستَغفِرُ اللهَ (میں اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں) کہتے، پھر یہ دعا فرماتے: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي ( اے اللہ ! میری مغفرت فرما، اور مجھے ہدایت پر ثابت قدم رکھ، اور مجھے رزق عطا فرما، اور مجھے عافیت دے) اَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنْ ضِيقِ الْمُقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ( میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، قیامت کے دن کھڑے ہونے کی تنگی سے)
(السنن لابن ماجة، بَابُ مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنَ اللَّيْلِ، رقم الحديث: 1356)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (باب ما يستفتح به الصلاة من الدعاء، رقم الحديث: 767، ط: دار ابن حزم)
حدثنا ابن المثنى، حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة، حدثني يحيى بن أبي كثير، حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف، قال: سألت عائشة بأي شيء كان نبي الله صلى الله عليه وسلم يفتتح صلاته إذا قام من الليل؟ قالت: كان إذا قام من الليل يفتتح صلاته «اللهم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون، اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك إنك أنت تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم»،
سنن ابن ماجۃ: (بَابُ مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنَ اللَّيْلِ، رقم الحديث: 1356، ط: دار المعرفۃ)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَزْهَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: مَاذَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ بِهِ قِيَامَ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ، كَانَ يُكَبِّرُ عَشْرًا، وَيَحْمَدُ عَشْرًا، وَيُسَبِّحُ عَشْرًا، وَيَسْتَغْفِرُ عَشْرًا، وَيَقُولُ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي» وَيَتَعَوَّذُ مِنْ ضِيقِ الْمُقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی