سوال:
میں نے سنا ہے کہ جو تاجر دھوکہ دہی، خیانت اور جھوٹ بول کر تجارت کرتے ہیں، انہیں قیامت کے دن گناہ گار اٹھایا جائے گا، یہ بات کہاں تک درست ہے؟
جواب: حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ عید گاہ کی طرف نکلے، آپ ﷺنے لوگوں کو آپس میں خرید وفروخت کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت ! تاجروں نے آپ کی بات کا جواب دیا اور اپنی گردنیں اور آنکھیں اٹھا کر متوجہ ہوئے، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تاجروں کو قیامت کے دن فاسق و فاجر لوگوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا، ہاں ! مگر وه تاجر جو الله تعالی سے ڈرتے اور نیکی کرتے اور سچ بولتے ہیں۔(سنن ترمذی)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو تاجر اپنی تجارت میں سچ نہیں بولتے، بلکہ جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور بد عملی کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے ڈرتے نہیں ہیں، قیامت کے دن ان کو فاسق و فاجر لوگوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا، لہذا تجارت کرتے وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور سچ بولتے رہنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (507/2، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن إسماعيل بن عبيد بن رفاعة، عن أبيه، عن جده أنه خرج مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى المصلى، فرأى الناس يتبايعون، فقال: يا معشر التجار، فاستجابوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ورفعوا أعناقهم وأبصارهم إليه، فقال: إن التجار يبعثون يوم القيامة فجارا، إلا من اتقى الله، وبر، وصدق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی