سوال:
آج کل سردی کا موسم چل رہا ہے، ہر دوسرا تیسرا شخص نزلہ زکام میں مبتلا ہے، مجھے بھی نزلہ ہورہا ہے، دوپہر کے وقت میں روٹی سے سالن کھا رہا تھا کہ میری ناک سے ایک قطرہ ناک کا پانی بہہ کر سالن میں گر گیا، تو میں نے اس سالن کو پھینک دیا، تو والدہ کہنے لگیں کہ کیوں پھینک دیا، ناک کا پانی ناپاک نہیں ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ میری والدہ کی یہ بات کہاں تک درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ناک کا پانی پاک ہے، لہذا اگر وہ پانی کسی کھانے یا پینے کی چیز میں گر جائے، تو اس سے کھانے اور پینے کی چیز ناپاک نہیں ہوگی، اور اس کا استعمال کرنا درست ہوگا، البتہ اگر کوئی شخص طبعی طور پر کراہت کی وجہ سے اس کھانے یا پینے کی چیز کو استعمال نہ کرے، تو اس کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (305/1، ط: دار الفکر)
وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة
(قوله: وكذا كل ما يخرج بوجع إلخ) ظاهره يعم الأنف إذا زكم
الھندیۃ: (339/5، ط: دار الفکر)
ويجوز أكل مرقة يقع فيها عرق الآدمي أو نخامته أو دمعه، وكذا الماء إذا غلب وصار مستقذرا طبعا، كذا في القنية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی