سوال:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، کیا میرے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے پوچھا: تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ حدیث "صحیح" ہے،اور سنن ترمذی میں موجود ہے، ذیل میں مکمل حدیث سند،متن اور ترجمہ کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے۔
حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن محمد بن سوقة، عن ابي بكر بن حفص، عن ابن عمر، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إني اصبت ذنبا عظيما، فهل لي من توبة؟ قال: " هل لك من ام؟ قال: لا، قال: هل لك من خالة؟ قال: نعم، قال: فبرها "۔
(حدیث نمبر:١٩٠٤، ج:٣،ص:٣٧٨,دارالغرب الاسلامي)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، کیا میرے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ آپ نے پوچھا: ”کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”اس کے ساتھ حسن سلوک کرو“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 1904، 378/3، ط: دار الغرب الاسلامي)
وفي الباب عن علي حدثنا ابن أبي عمر قال: حدثنا سفيان، عن محمد بن سوقة، عن أبي بكر بن حفص، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، ولم يذكر فيه عن ابن عمر، وهذا أصح من حديث أبي معاوية وأبو بكر بن حفص هو ابن عمر بن سعد بن أبي وقاص
جامع العلوم و الحكم لابن رجب الحنبلي: (ص: 137، ط: دار المعرفة)
وخرجه ابن حبان في صحيحه والحاكم وقال على شرط الشيخين لكن خرجه الترمذي من وجه آخر مرسلا وذكر أن المرسل أصح من الموصول
تخریج الحدیث:
أخرجه أحمد في "المسند": 242/8 (4624)، ط: مؤسسة الرسالة.
أخرجه ابن حبَّان فی "صحیحہ" 177/2، (435)ط: مؤسسة الرسالة.
أخرجه البيهقي فی "شعب الإيمان": 264/10، (7480) ط: مكتبة الرشد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی