عنوان: رشتوں کی بندش دور کرنے کے لیے بکرا ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کرنے کا حکم(6814-No)

سوال: میری بیٹی کی شادی نہیں ہورہی ہے کسی نے بتایا ہے کہ بکرا ذبح کر کے اس کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرنے سے اس کی شادی ہو جائے گی، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: ۱) کسى بھى مصیبت و پریشانی کو دور کرنے کے لیے جو صدقہ و خیرات کیا جاتا ہے، وہ نفلى صدقہ کہلاتا ہے اور نفلى صدقہ میں ضرورى نہیں ہے کہ بکرا ہى ذبح کیا جائے، بلکہ اللہ تعالى کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کسی بھى خیر کے کام میں مال خرچ کرنے کو صدقہ و خیرات کہا جاتا ہے۔
اگرنفلی صدقہ کسى مستحق کو دینا ہو تو بہتر یہ ہے کہ اس کى ضرورت کو دیکھا جائے، اگر اسے گوشت کی ضرورت ہو تو بکرا ذبح کر کے اسے گوشت دیا جا سکتا ہے اور اگر اسے چاول، آٹا، چینی، لحاف، بستر، رقم یا کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو اسے وہ اشیاء دے کر اس کی ضرورت کو پورا کر دیا جائے، تب بھی یہ صدقہ کہلائے گا اور صدقے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جسے صدقہ دیا جائے، اسے نقد رقم کى صورت میں دیا جائے، تاکہ وہ اسے اپنى مرضی کے مطابق اپنی ضروریات میں خرچ کرسکے۔
شریعت میں سوائے چند صورتوں (حج، عید الاضحیٰ کی قربانی اور عقیقہ وغیرہ) کے کہیں بھی صدقہ کے لیے جانور ذبح کرنے کو لازم قرار نہیں دیا گیا ہے، جیسا کہ عوام میں صدقہ کے بارے میں یہ تصور مشہور ہے کہ بکرا ہی صدقہ میں دیا جائے تو صدقہ ادا ہوتا ہے اور خاص طور پر "کالا بکرا"ہى صدقہ دینے سے بلائیں دور ہوتی ہیں اور یہ جان کے بدلے جان کا فدیہ ہے وغیرہ وغیرہ، شریعت میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے۔
۲) مناسب رشتوں کی تلاش کے لیے جو شریعت کی ہدایات ہیں، انہیں اختیار کیا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ دعاؤں، صلوۃ الحاجت، صلوۃ الاستخارۃ، صدقہ اور استغفار کی کثرت کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 60)
"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ".

التفسير المنير للشیخ وهبة الزحيلي: (77/3، ط: دار الفکر )
"وكلّ هذا يدل على أن الإنفاق يكون للفقراء عامة، مسلمين أو غير مسلمين، وذلك نحو قوله تعالى: وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً. إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ، لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَلا شُكُوراً [الإنسان 76/ 8- 9] . والأسير في دار الإسلام لا يكون عادة إلا مشركا وقوله تعالى: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ، وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ [الممتحنة 60/ 8] . ويؤيد ذلك ما روي في الصحيحين عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: «قال رجل: لأتصدقنّ الليلة بصدقة، فخرج بصدقته، فوضعها في يد زانية، فأصبح الناس يتحدّثون: تصدّق على زانية، فقال: اللهم لك الحمد: على زانية! لأتصدقنّ الليلة بصدقة، فوضعها في يد غني، فأصبحوا يتحدّثون: تصدّق الليلة على غني، قال: اللهم لك الحمد: على غني! لأتصدقنّ الليلة بصدقة، فخرج فوضعها في يد سارق، فأصبحوا يتحدّثون: تصدّق الليلة على سارق، فقال: اللهم لك الحمد، على زانية، وعلى غني، وعلى سارق، فأتي فقيل له: أما صدقتك فقد قبلت، وأما الزانية فلعلها أن تستعف بها عن زنا، ولعل الغني يعتبر، فينفق مما أعطاه الله، ولعل السارق أن يستعف بها عن سرقته".

الموسوعة الفقهیة الکویتیة: (109/44، ط: وزارة الأوقاف و الشئون الإسلامية)
"الصَّدَقَةُ فِي اللُّغَةِ: مَا يُعْطَى فِي ذَاتِ اللَّهِ، أَوْ مَا يُعْطَى عَلَى وَجْهِ التَّقَرُّبِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى لاَ عَلَى وَجْهِ الْمَكْرُمَةِ، أَوْ مَا تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى الْفُقَرَاءِ . َفِي الاِصْطَلاَحِ هِيَ تَمْلِيكٌ فِي الْحَيَاةِ بِغَيْرِ عِوَضٍ .
وَيَقُول الرَّاغِبُ الأَْصْفَهَانِيُّ: الصَّدَقَةُ مَايُخْرِجُهُ الإِْنْسَانُ مِنْ مَالِهِ عَلَى وَجْهِ الْقُرْبَةِ كَالزَّكَاةِ، لَكِنَّ الصَّدَقَةَ فِي الأَْصْل لِلْمُتَطَوَّعِ بِهِ، وَالزَّكَاةُ تُقَال لِلْوَاجِبِ .
وَالْغَالِبُ عِنْدَ الْفُقَهَاءِ اسْتِعْمَال لَفْظِ الصَّدَقَةِ فِي صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ".

الفقه الإسلامي وأدلته: (2056/3، ط: دار الفکر)
"يستحب أن يتصد ق بما تيسر، ولا يستقله، ولا يمتنع من الصدقة به لقلته وحقارته، فإن قليل الخير كثير عند الله تعالى، وما قبله الله تعالى وبارك فيه، فليس هو بقليل، قال الله تعالى: {فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره}، وفي الصحيحين عن عدي بن حاتم: «اتقوا النار ولو بشق تمرة» وفي الصحيحين أيضا عن أبي هريرة: «يا نساء المسلمات لا تحقرن جارة أن تهدي لجارتها ولو فرسن شاة» والفرسن من البعير والشاة كالحافر من غيرهما. وروى النسائي وابن خزيمة وابن حبان عن أبي هريرة: «سبق درهم مئة ألف درهم، فقال رجل: وكيف ذاك يا رسول الله؟ قال: رجل له مال كثير أخذ من عرضه - جانبه- مئة ألف درهم تصدق بها، ورجل ليس له إلا درهمان، فأخذ أحدهما، فتصدق به".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 963 Feb 15, 2021
rishton ki bandish door karne kay liye bakra zibah kar kay uska gohst taqseem karne ka hukum, The command / order / ruling to slaughter a goat and distribute its meat to remove the estrangement / Restraint of relations

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Bida'At & Customs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.