سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فرقان کی کاشف کے ساتھ کپڑے کے کام میں پارٹنر شپ ہے اور فرقان کی فاروق کے ساتھ ایک اور کام میں الگ سے پارٹنر شپ ہے۔
اب فرقان کاشف والی پارٹنر شپ کے پیسوں سے کپڑا خرید کر فاروق کے ساتھ شریک کی حیثیت سے وہ کپڑا خرید لیتا ہے اور پھر اس کپڑے پر کام کروا کر آگے فروخت کرتا ہے۔
کیا فرقان کا مذکورہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟
اگر درست نہیں تو اس کی درست صورت کیا ہوگی، جس میں فرقان کو دنوں پارٹنر شپوں میں اپنی سرمایہ کاری کا فائدہ ہو؟
جواب: مذکورہ صورت میں فرقان کا اپنی ایک شراکت داری (partner ship) سے کپڑا خرید کر دوسرے شرکاء کو فروخت کرنا شرعاً درست ہے٬ کیونکہ یہاں ایک ہی معاملے میں ایک شخص دونوں طرف سے سودا (عقد) نہیں کر رہا٬ بلکہ دو الگ الگ معاملے ہیں٬ اس لئے اس کی گنجائش ہے٬ بشرطیکہ دیگر شرکاء کی طرف سے اس کی ممانعت نہ ہو.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (316/4، ط: دار الفکر)
(ولكل من شريكي العنان والمفاوضة أن يستأجر) من يتجر له أو يحفظ المال (ويبضع) أي يدفع المال بضاعة، بأن يشترط الربح لرب المال (ويودع)
ويعير (ويضارب)......(ويوكل) أجنبيا ببيع وشراء، ولو نهاه المفاوض الآخر صح نهيه بحر (ويبيع)... (بنقد ونسيئة)....
(قوله ولكل من شريكي العنان إلخ) هذا كله عند عدم النهي. ففي الفتح: وكل ما كان لأحدهما إذا نهاه عنه شريكه لم يكن له فعله
بدائع الصنائع: (87/6)
"(وأما) الذي يرجع إلى عمل المضارب مما له أن يعمله بالعقد، وما ليس له أن يعمل به فجملة الكلام فيه أن المضاربة نوعان: مطلقة ومقيدة، فالمطلقة أن يدفع المال مضاربة من غير تعيين العمل والمكان والزمان وصفة العمل ومن يعامله والمقيدة أن يعين شيئا من ذلك.......وله أن يشتري ما بدا له من سائر أنواع التجارات في سائر الأمكنة مع سائر الناس لإطلاق العقد وله أن يدفع المال بضاعة لأن الإبضاع من عادة التجار، ولأن المقصود من هذا العقد هو الربح"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی