سوال:
اگر کسی نے دوسرے شخص کو زکوة کی رقم دی، اور اس بات کا وکیل بنایا کہ اس کو مستحقین تک پہنچا دینا، اس وکیل کے پاس سے وہ رقم ضائع ہوگئی تو اب وکیل کے لیے کیا حکم ہے؟ اگر وکیل اپنی رقم سے تلافی کر دے اور زکوة دینے والے کو نہ بتائے تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ وکیل کے پاس سے موکل کی زکوۃ کی رقم ضائع ہوجانے سے موکل کی زکوۃ ادا نہیں ہوئی ہے، اگر وکیل نے زکوۃ کی رقم کی حفاظت میں غفلت و کوتاہی نہیں کی، تو وکیل اس رقم کا ضامن نہیں ہوگا، وکیل کو چاہیے کہ مؤکل کو رقم ضائع ہونے کے متعلق آگاہ کردے، تاکہ مؤکل اپنی زکوۃ ادا کردے۔
البتہ اگر وکیل اپنے پاس سے مؤکل کی زکوۃ ادا کرنا چاہے، تو چونکہ وکیل کی طرف سے یہ ادا کرنا تبرع اور احسان ہوگا، اور یہ اس کے ذمہ نہیں ہے، لہذا اس صورت میں مؤکل کی اجازت لینا ضروری ہے، بلا اجازت زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
اگر وکیل نے رقم کی حفاظت میں غفلت و کوتاہی کی، تو اس صورت میں وکیل اس رقم کا ضامن ہوگا، اس صورت میں بھی وکیل اگر مؤکل کی طرف سے زکوۃ ادا کرنا چاہتا ہے، تو مؤکل کی صراحتاً اجازت لے لینا احتیاطاً بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (270/2، ط: دار الفکر)
"ولايخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء".
(قوله : ولايخرج عن العهدة بالعزل ) فلو ضاعت لاتسقط عنه الزكاة".
البحر الرائق: (443/5)
" وبه يعلم حكم من يجمع للفقراء ، ومحله ما إذا لم يوكلوه فإن كان وكيلاً من جانب الفقراء أيضاً فلا ضمان عليه، فإذا ضمن في صورة الخلط لاتسقط الزكاة عن أربابها، فإذا أدى صار مؤدياً مال نفسه، كذا في التجنيس".
و فیہ ایضا: (227/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ولو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز؛ لأنها وجدت نفاذا على المتصدق؛ لأنها ملكه، ولم يصر نائبا عن غيره فنفذت عليه ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف، وإن لم يشترط الرجوع كالأمر بقضاء الدين وعند محمد لا رجوع له إلا بالشرط.
رد المحتار: (269/2، ط: دار الفکر)
قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اه أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اه لكن قد يقال: تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع. قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع۔
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتویٰ: 143909201147
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی